سورة الاعراف - آیت 176

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات) کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے [١٧٧۔ الف] یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا۔ آپ ایسے قصے ان سے بیان کرتے رہئے شاید یہ لوگ کچھ غور و فکر کریں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں کوئی شخص مشہور تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے علم وفضل سے نوازا مگر جب اس نے رجوع عام دیکھا تو پاؤں پھسل گئے ہواوہوس کی پیروی شروع کردی ، نتیجہ یہ ہوا ، کہ اللہ کی نظروں سے گر گیا ، قرآن حکیم نے نام نہیں لیا ، مقصود حاصل ہے ، یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جو علم وسلوک کی چند منزلیں طے کرلینے کے بعد گمراہ ہوجاتے ہیں نفس کی خواہشیں ان پر غالب آجاتی ہیں ، وہ روحانی رفعت کی بجائے نفسانی پستی کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ یہود کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوگئی تھی اسی لئے فرمایا (آیت) ” ذالک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا “۔ یعنی بالکل یہی حالت ان مکذبین کی ہے ، یا تو شریعت کے طالب ہیں ، کتاب الہی کے حافظ وعالم ہیں ، یا پھر ہوائے نفس کی پیروی ہے گویا کسی کروٹ چین نہیں ، ان کی حالت نفسی کتے کی طرح ہے کہ ہر حالت میں پریشان ہیں ، نہ عمل کی توفیق میسر ہے نہ فسق وفجور سے مطمئن ۔