سورة البقرة - آیت 101

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب بھی ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی ایسا رسول آیا جو ان کے پاس موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا تھا تو انہی اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو یوں اپنے پس پشت [١١٧] ڈال دیا۔ جیسے وہ (اسے) جانتے ہی نہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے من عند اللہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا پیغام براہ راست مستفادہ ہوتا ہے ، جناب قدس سے (آیت) ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی “ اس کی ساری زندگی آئینہ ہوتی ہے ، رضائے الہی کا (آیت) ” وھم بامرہ یعملون “ اور وہ تمام پہلی تعلیمات کا مصدق ہوتا ہے لیکن اہل کتاب کی شومی عقل ملاحظہ ہو کہ باوجود ان سب چیزوں کے دیکھنے کے منکر ہی رہے ۔