وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور فرعون کی قوم [١٢٤] کے سردار فرعون سے کہنے لگے : ’’کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ زمین میں فساد مچاتے پھریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں‘‘ وہ کہنے لگا : ’’میں ان کے بیٹوں کو مروا ڈالوں گا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دوں گا اور ہمیں ان پر پوری [١٢٥] قدرت حاصل ہے۔‘‘
(ف ١) یہ قاعدہ ہے جب کسی قوم میں بیداری پیدا ہو ، تو حکمران طبقہ اسے بہر نوع دبا دینا چاہتا ہے ، اور اس سلسلے میں بڑے سے بڑا ظلم میں روا رکھا جاتا ہے ، فرعون نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل میں کچھ خود دارو متاع ایمان کو عزیز رکھنے والے لوگ پیدا ہوگئے ہیں ، تو کہا میں المناک سزائیں دوں گا اور قہر وتسلط کا پورا پورا مظاہرہ ہوگا ۔