بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
(شروع) اللہ کے نام [٢] سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ [٣]
ام ال کتاب کے فضائل ونکات : قرآن مجید میں اس کا نام ” سبع مثانی ہے ۔ احادیث میں فاتحہ ، کافیہ ‘ ام ال کتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لئے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ہے : سبع مثانی “ ہے اس لئے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے : ” فاتحہ “ ہے اس لئے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے ۔ : کنز “ کہلاتی ہے اس لئے کہ تمام اس لئے کہ تمام اساسی وضروری اصول اس میں مذکور ہیں ۔ ام ال کتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھئے ، تمام باتیں بالاجمال اس میں آگئی ہیں ۔ (لا) : رب کائنات کی حمد وستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیں جو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے ۔ (ب) : ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہر کام میں اسی سے استعانت کا اقرار ۔ (ج) : صراط مستقیم یا جادہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کئے اور جس سے ہٹ کر چاہ غضب وضلالت میں گر گئے ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ یہ قرآن میں عظیم ترین سورۃ ہے ۔ (ی) : امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) جو مفسر امت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں ‘ فرماتے ہیں فاتحہ دو ثلث تقریبا آجاتے ہیں یعنی دو تہائی مضامین (ف ١) بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہر نوع کے آغاز کے لئے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہوگئے ۔ حدیث شریف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کل امر ذی بال لم یبدا باسم اللہ فھو ابتر “۔ یعنی ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے ہو ‘ ورنہ ناکامی ہوگی ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے جو بسم اللہ میں بتائے گئے ہیں ۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے ۔ (١) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو (٢) خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیا جائے یعنی بتدرئھ استقلال اور رجا کو ہاتھ سے دیا جائے ۔ (٣) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھا جائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے ۔ وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا ۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گئے ۔ ظاہر ہے انہیں ہر وقت ملحوظ رکھنا ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے ۔