سورة البقرة - آیت 1

لم

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

الف، لام، میم

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

سورۃ بقرہ میں ہوں اللہ سب سے بڑے علم والا اگر تم میرے علم پر یقین رکھتے ہو تو جان لو کہ یہ کتاب جس کا نام قرآن شریف ہے بلا شک (صحیح) اور میری طرف سے ہے اور جو یہ شبہ ہو کہ اگر یہ کتاب بلا شک صحیح ہے تو اس کو سب لوگ کیوں نہیں مانتے ؟ تو اس کا جواب سنو ! کہ مخلوق تین قسم پر ہے ایک وہ لوگ ہیں جنکو یہ خیال ہے کہ ہمارا کوئی مالک ہے جو ہم سے ہمارے افعال کی نسبت سوال کرے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ؟ ایسے لوگ تو ہمیشہ مجھ (اللہ) سے ڈرتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنے خیالات کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ غلط ہوں دوسرے کی سنتے ہی نہیں خواہ کیسی ہی کہے بلکہ الٹے حق گوئوں سے جو ان کی رائے کے مخالف ہوں دشمن ہوجاتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہیں جو اپنی غرض کے یار مطلب کے آشنا۔ نہ اسلام سے عداوت نہ کفر سے عار۔ بلکہ جس طرف دنیاوی مطلب ہو اسی طرف کے غلام اگر مسلمان ہیں تو اپنے مطلب کو۔ کافر ہیں تو اپنی غرض سے۔ پس یہ قرآن بیشک پہلی قسم کے لوگوں یعنی اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ بعد ہدایت یابی کے انکی پہچان کے دو نشان ہیں۔ اول نشانی اور بڑی ضروری نشانی یہ ہے جو وہ بِن دیکھی غیب کی باتیں حسب فرمان الٰہی مانتے ہیں اور نماز کو ایسا ادا کرتے ہیں کہ پانچوں وقت جماعت سے پڑھتے ہیں اور علاوہ اسکے ممسک اور بخیل بھی نہیں بلکہ ہمارے دیے ہوئے سے خرچ بھی کرتے ہیں اور دوسری نشانی یہ سمجھو کہ اللہ سے ڈرنے والے وہ ہیں اے پیغمبر ! تیری طرف اتری ہوئی کتاب اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی کتابیں بھی مانتے ہیں نہ صرف زبانی دنیا داروں کی طرح یا جھوٹے واعظوں کی مانند کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ بلکہ وہ نیک کام اور اخلاص میں ایسے مشتاق ہیں کہ ان کی اخلاص مندی دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہی لوگ قیامت کو مانتے ہیں جو ہر وقت اسی کی فکر میں لگے رہتے ہیں جو کام کرتے ہیں قیامت کی عزت اور ذلت کا لحاظ اس میں پہلے اس سورت کی فضیلت حدیثوں میں بہت آئی ہے۔ ایک حدیث میں جو ترمذی وغیرہ نے نقل کی ہے وارد ہے کہ یہ سورت قیامت کے روز اپنے پڑھنے والے کے ساتھ جناب باری میں آئے گی اور اس کی طرف سے بطور وکالت کے گفتگو کرے گی اور اس کی سفارش میں کہے گی کہ اے اللہ تیرے بندے نے مجھے تیرا کلام جان کر پڑھا تھا اور مجھ پر عمل کیا اس کو معاف کر دے۔ اسی طرح ہر ایک پڑھنے والے کی سفارش کر کے معافی کرائے گی۔ (منہ) ! (الٓمّٓ) ان حروف مقطعات کے معنے بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا۔ جس کا مفصل ذکر تفسیر اتقان اور معالم میں مرقوم کرلیتے ہیں ایسے لوگوں کی نسبت ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ بے شک یہی لوگ اپنے رب کے فرمان پر چلنے والے ہیں اور اگر یہ اسی طرز پر رہے تو بے شک یہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں ہاں وہ لوگ جو عناد کے سبب ہر ایک حقانیت سے انکاری ہیں یعنی جن کو تیرا سمجھانا یا نہ سمجھانا برابر ہے وہ اس کتاب کو نہیں مانیں گے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بھی اپنی جناب سے دور کردیا ہے۔ ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح وہ معنے ہیں جو ابن عباس (رض) سے مروی ہیں کہ ہر ایک حرف اللہ کے نام اور صفت کا مظہر ہے اسی لئے میں نے یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے (منہ) (اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی) بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان نے عیسائیوں سے انجیل کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل مانگی تو جھٹ سے انہوں نے یہ آیت یا اس کے ہم معنے کوئی دوسری آیت پڑھ دی اور سائل مسلمان پر زور ڈالا کہ تمہارا قرآن کتب سابقہ کی شہادت دیتا ہے۔ بلکہ ان کی تسلیم کو داخل ایمان بتاتا ہے۔ پھر تم اس سے زیادہ ثبوت کیا چاہتے ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس جگہ جو پہلا ہی موقع کتب سابقہ کی تصدیق کا آیا ہے ہم اس امر کی تحقیق کردیں کہ کتب سابقہ جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے وہ یہی ہیں جن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت زمانہ حال کے عیسائیوں سے مطلوب ہے یا اور۔ اور ان کتابوں کی قدر و منزلت کہاں تک ہے اور یہ بھی واضح کردیں کہ اس مطلب پر عیسائیوں کا اس آیت کو پیش کرنا مثبت مدعا ہے یا صرف دفع الوقتی یا ناسمجھی۔ پس واضح ہو کہ کتب سابقہ جن کی تصدیق قرآن کریم نے کی ہے بحیثیت مجموعی یہ نہیں جو اس وقت متدادل ہیں۔ یہ تو ایک مثل کتب تواریخ کے ہیں۔ اس ہمارے دعویٰ کا ثبوت ان کا موجودہ طرز ہی بتلا رہا ہے تورٰیت ابتدا سے انتہا تک۔ انجیل اوّل سے آخر تک پڑھنے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے والے حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہما السلام کے سوا کوئی اور ہی ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے بعد کے واقعات کا اس میں درج ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ان جملوں کی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور مسیح ( علیہ السلام) کو خبر تک نہیں کجا یہ کہ اللہ کی طرف سے ان پر الہام ہوئے ہوں مثلاً حضرت موسیٰ کی وفات اور بعد وفات کے واقعات کا ذکر بھی تورٰیت میں مذکور ہے۔ تورٰیت کی پانچویں کتاب استثناء میں لکھا ہے :۔ ” سو اللہ کا بندہ موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہوآب کی سرزمین میں مر گیا اور اس نے اسے ہوآب کی ایک وادی میں بیت مغفور کے مقابل گاڑا آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا اور موسیٰ ( علیہ السلام) اپنے مرنے کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا کہ نہ اس کی آنکھیں دھندلائیں اور نہ اس کی تازگی جاتی رہی۔ سو بنی اسرائیل موسیٰ ( علیہ السلام) کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے“ (باب ٣٤۔ فقرہ ٥) آگے چل کر دسویں فقرے میں لکھا ہے :۔ ” اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا “ اورؔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے سولی پر جان دینے کا مذکور اناجیل میں بصراحت موجود ہے بلکہ سولی کے بعد کے واقعات بھی ان میں پائے جاتے ہیں ان سب امور پر غور کرنے سے یہ نتیجہ باآسانی نکل سکتا ہے کہ ان واقعات کے دیکھنے اور لکھنے والے سوا ان دو صاحبوں کے کوئی اور شخص ہوں گے اور اگر عیسائیوں کا عقیدہ بھی بغور دیکھیں تو وہ بھی اس امر کے قائل نہیں کہ تورٰیت انجیل موجودہ کے مصنف موصوفہ انبیاء ہیں۔ بلکہ ان کے خیال کے مطابق بھی ان کے بعد کے لوگ ہیں اناجیل کے مصنف تو یہی لوگ ہیں جن کے نام سے اناجیل مروج ہیں ایسا ہی تورٰیت وغیرہ کا لکھنے والا اور واقعات کا جمع کرنے والا بھی کوئی شخص ہوگا یوشع بن نون ہو یا کوئی اور۔ ہاں اہل اسلام اور عیسائیوں کا یہ واقعہ منقول ہے۔ صرف اس قدر اختلاف ہے کہ عیسائی اس کے قائل ہیں کہ جو کچھ اناجیل وغیرہ میں مذکور ہے بیشک حواریوں ہی نے لکھا مگر وہ اس کے لکھنے میں معصوم تھے ان کی حفاظت اللہ کے یا بقول ان کے مسیح کے ذمہ تھی جو خود اللہ ہے۔ جو واقعات مسیح کے تھے ان کو الہام کے ذریعہ معلوم ہوتے تھے وہ لکھتے جاتے تھے۔ مثلاً جو واقعات حضرت مسیح کو پیش آئے کہیں انہوں نے کلام الٰہی کا وعظ کہا کہیں اپنے معمولی بشری کاموں کھانے پینے میں مصروف رہے سب کے سب مصنفوں نے اناجیل میں درج کردیئے۔ چنانچہ ان کے اختلافات سے یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک واقعہ کو تو ایک لیتا ہے دوسرا نہیں لیتا۔ مثلاً مسیح کا زندہ ہو کر آسمان پر چلا جانا مرقس لیتا ہے متی نہیں لیتا۔ متی کا مسیح کے پیچھے ہو لینا متی بیان کرتا ہے۔ مرقس وغیرہ نہیں کرتے۔ اسی طرح اور سینکڑوں واقعات ہیں جو ایک انجیل میں ہیں دوسری میں نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایسے واقعات کا چھوٹ جاناکچھ تعجب بھی نہیں۔ بالخصوص جب کہ ثبوت کی بنا صرف سماع ہی پر ہو۔ چنانچہ لوقا اپنی انجیل کے شروع میں ظاہر کرتا ہے کہ میں نے بلکہ سب نے راویوں سے سن سن کر واقعات لکھے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تورٰیت انجیل جن کی قرآن کریم نے شہادت دی ہے یہ نہیں۔ ان کو ان کے ساتھ بجز شراکت اسمی کے کوئی شراکت نہیں جیسے کوئی شخص خاندان مغلیہ کا حال لکھ کر اس کا نام گلستان رکھ دے تو وہ شیخ سعید کی گلستان نہ ہوگی۔ پس اس انجیل موجودہ کے ثبوت میں آیت قرآنی کا پیش کرنا اور آیت شریفہ قرآنیہ کو اپنے دعویٰ کا مثبت جاننا ہرگز صحیح نہیں۔ قرآن شریف نے کہیں یہ نہیں بتلایا کہ انجیل متداول مسیح پر نازل ہوئی یا یہ کہ اس کو بھی مانو بلکہ ایمان کے موقع پر اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ اَو مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰے یعنی ان کتابوں کو جو تجھ سے پہلے اتریں اور موسیٰ اور عیسیٰ کو ملیں۔ ان الفاظ شریفہ سے تعبیر کرنے میں اسی طرف اشارہ ہے جو ہم لکھ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ عیسائی ان کے مصنفوں کو الہامی مانتے ہیں۔ سو پڑے مانیں۔ اسی کا ثبوت ہم کو دیں کسی عقلی یا نقلی دلیل سے ثابت کریں کہ متی مرقس وغیرہ الہامی تھے اور یہ کتابیں ان کے الہام سے ہیں و دونہ ! خرط القتاد۔ آیت قرآنی کو پیش کرتے ہوئے خیال کریں کہ دعویٰ کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے اناجیل موجودہ کے مصنفوں کے الہامی ہونے کا ہے اور دلیل سے حضرات موسیٰ اور مسیح کا الہام ثابت ہوتا ہے فآنیّٰ ھٰذا مِن ذاک۔ بعض عیسائی بھولے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی غرض سے کہا کرتے ہیں کہ اگر موجودہ اناجیل اصلی نہیں تو اصل لا کر دکھائو۔ ہم اس سے مقابلہ کر کے دیکھیں جبکہ تمہارا قرآن شریف ان کی شہادت دیتا ہے تو ان کا وجود بھی بتلائو کہ کہاں ہے؟ اس کا جواب ہے کہ اگر کوئی شخص جنگل میں کسی کو ایک چاندی کا ٹکڑہ دکھا کر کہے کہ یہ انگریزی روپیہ ہے وہ شخص بوجہ اس کے کہ اس پر انگریزی سکّہ نہیں اس سے انکار کرے تو شخص مدعی کا حق ہے؟ کہ اپنے عوٰے کی یہ دلیل بیان کرے کہ اگر یہ روپیہ نہیں تو اصلی روپیہ لا کر دکھائو۔ اس سے مقابلہ کرو تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون۔ اگر نہ ملے تو میرا دعوٰے ماننا ہوگا۔ ہرگز یہ کلام مدعی کا صحیح نہیں۔ کیونکہ اس کے انکار کی وجہ تو یہ تھی کہ چونکہ اس ٹکڑے پر جو نشان روپیہ بننے کے ہونے چاہئیں وہ نہیں اس لئے یہ ٹکڑا روپیہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اناجیل موجودہ کی نسبت بھی مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ قطع نظر ان کے موجودہ طرز کے چونکہ ان میں ایسے واقعات بھی درج ہیں جو حضرت موسیٰ اور مسیح کے زمانہ کے قطعاً نہیں ہوسکتے اس لئے ہم ان کو انجیل مسیحی نہیں مانتے۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ اصلی انجیل کلا یا جزء اً اسی میں ہوجیسے کہ بعض فقرات جو حضرت مسیح نے بطور وعظ کے فرمائے ہیں یہی بتلا رہے ہیں مگر چونکہ ایسے فقرات الہامی۔ مجموعہ غیر الہامی میں آکر وہی رنگ اختیار کرلیتے ہیں اس لئے ہم من حیث المجموعہ ان پر غیر الہامی کا حکم لگاتے ہیں پس اناجیل موجودہ کی مثال بالکل یہ ہوگی کہ ایک واعظ قرآن کریم کی ایک دو آیتیں پڑھ کر گھنٹہ دو گھنٹہ تک وعظ کہے۔ پھر ! یہ ایک محاورہ ہے جو مشکل کام پر بولا جاتا ہے۔ اسی وعظ کو کوئی شخص اوّل سے آخر تک کسی اخبار یا رسالہ میں چھپوا دے پس جیسا کہ یہ اخبار یا رسالہ الہامی نہیں ہوسکتا گو اس میں آیات قرآنی بھی ہیں۔ ایسا ہی اناجیل موجودہ الہامی نہیں جب تک کہ عیسائی اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ ان کے مصنف بھی الہامی تھے۔ ودونہ خرط القتاد۔ منہ تحقیق اس کی یہ ہے کہ ہر زمانہ میں دستور ہے کہ بزرگوں کے واقعات سب کے سب چاہے کیسے ہی ہوں مسلسل قلم بند کیا کرتے ہیں گو ان میں اس بزرگ کے معمولی مشاغل کھانا پینا چلنا پھرنا بھی کیوں نہ ہو پھر اسی پر بس نہیں بلکہ وفات اور بعد وفات کے حالات بھی درج کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) اور حضرت صلحائے امت وغیرہ بزرگان کی سو انح عمریاں اس کی شاہد عدل ہیں۔ ان وقائع کے جمع کرنے سے مصنفوں کی یہ غرض ہوتی ہے کہ جو واقعات ان بزرگوں کی زندگی کے یا بعد مرنے کے جو ان کے تعلق ہوں بعض کو بطور مسائل شرعیہ اور بعض کو بغرض رقت قلب بیان کریں۔ یہ خیال ان کو ہرگز نہیں ہوتا کہ ان بزرگوں کے الہامی واقعات ہی کو لکھیں یہی وجہ ہے کہ ایسی تصنیفوں میں ان واقعات کا ذکر بھی ہوتا ہے جو ان بزرگوں کے الہامی تو کجا اختیاری بھی نہیں ہوتے مثلاً سوتے وقت خراٹے مارنا یا بحرکت طبعی گاہے بلندی سے پستی میں گر پڑنا یا موت کے وقت بتقاضائے طبیعت اللہ کو ایلی ایلی کہہ کر پکارنا وغیرہ وغیرہ۔ پس اسی طرح حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے خادموں نے بھی وہ واقعات جو ان صاحبوں کے سامنے بلکہ اس سے پہلے اور پچھلے جو ان سے متعلق تھے سب کو یکجا جمع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح کے پیدا ہونے کے پہلے کے حالات اور بقول ان کے بعد وفات کے واقعات بھی اپنی تحقیق اور حافظہ اور سماع کے مطابق ایک ایک جگہ جمع کر کے کتابیں بنائیں جسے فی زماننا اناجیل کہتے ہیں آخر کار لوگوں نے انہی کو بایں لحاظ کہ مسیح کے واقعات بتلا رہے ہیں۔ حضرت مسیح کی انجیل سمجھ لیا۔ نہ اس خیال سے کہ مسیح کی زندگی میں ان پر نازل ہوئی تھی بلکہ اس خیال سے کہ مسیح کے حالات بتلا رہے ہیں۔ قربان جائیں سرور عالم سید الانبیاء فداہ روحی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جنہوں نے ابتدا میں اسی لحاظ سے کہ شائد لوگ میرے واقعات اور میرے کلام اور کلام الٰہی میں فرق نہ کرسکیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح مورو اعتراض بنیں۔ اپنی حدیثیں لکھنے سے بھی منع فرما دیا تھا۔ لیکن جب لوگوں کو اس امر کی تمیز بخوبی ہوگئی کہ واقعات نبویہ اور ہوں۔ کلام الٰہی اور۔ وحی متلو اور ہو۔ اور غیر متلو اور۔ تو پھر احادیث نبویہ کے لکھنے کی اجازت ! بخشی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مسلمانوں کے ہاں علوم حدیث اور ہیں اور علوم قرآن اور۔ نہ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاملہ گذرا۔ جس کا دفعیہ ان سے مشکل ہو رہا ہے۔ ہماری اس مفصل تقریر سے اس شبہ کا جواب بھی ہوسکتا ہے جو عیسائی قرآن کریم کے قصص بنی اسرائیل پر کیا کرتے ہیں کہ فلاں قصہ جو قرآن شریف نے بنی اسرائیل کا بیان کیا ہے۔ کتب سابقہ میں نہیں۔ فلاں واقعہ جس طرح کہ قرآن شریف نے بیان کیا ہے اسی طرح کتب سابقہ میں نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتابیں سب کی سب مجموعہ بائیبل مثلا ایک تاریخ کے ہیں پس کسی واقعہ کا ان میں نہ ہونا یا کسی قصہ کا ان میں قرآن کریم کے مخالف ہونا قرآن پر اعتراض نہیں لا سکتا۔ کیونکہ بہت سی کتب تواریخ کا یہی حال ہے کہ کوئی کسی واقعہ کو چھوڑ جاتا ہے کوئی کسی قصہ کو کسی طرح بیان کرتا ہے دوسرا کسی طرح۔ پس جیسا کہ ان میں احتمال اس امر کا ہوتا ہے کہ مؤرخ کو یہ واقعہ سرے سے ملا نہ ہو یا ملا تو ہو مگر اس نے اس کو صحیح یا اپنے مذاق کے مطابق نہ پایا ہو۔ یا ناتمام ملا ہو۔ اسی طرح جا معین بائیبل پر احتمال ہے کہ ان کو وہ واقعہ جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے نہ ملا ہوگا۔ یا ملا مگر ناقص یا غلط۔ ان کے ایسا ہونے سے قرآن الہامی پر شبہ نہیں آسکتا۔ ہمارے اس بیان کی شہادت یوحنا مؤلف انجیل بھی دے رہا ہے جو اپنی انجیل یوحنا میں لکھتا ہے :۔ ” پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جدا جدا لکھے جائیں تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں تو دنیا میں نہ سما سکتیں“ (کیا سچ ہے یا الہامی مبالغہ؟) (باب ٢١۔ فقرہ ٢٥) پس اگر ایک واقعہ کتب سابقہ میں نہیں اور قرآن کریم میں ہے تو اس کے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں ہوسکتی کہ چونکہ ان میں نہیں۔ اس لئے غلط ہے کیونکہ کتب سابقہ میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس امر کی دلیل تو بیشک ہے کہ ان کے مصنف کو یہ واقعہ نہ ملا ہو یا اس کو حسب مذاق اپنا نہ سمجھا ہو مگر اس کی دلیل ہرگز نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہی نہ ہوا ہو۔ اس لئے کہ عدم علم سے عدم شیء لازم نہیں آتا۔ منہ ٢ ؎ سَوَائُ عَلَیْھِمْ بدل ہے صلہ (کَفَرُوْا) سے اور لَا یُؤْمِنُوْنَ خبر ہے ان کی۔ فاندفع ما اور داو کا دیرد۔ منہ فیہ اشارہ ! بخاری باب کتاب العلم۔