وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر [٨١۔ ١] سے کہا تھا : کیا تم نے بتوں کو الٰہ بنا لیا ہے؟ میں تو تجھے اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں
(74۔94) اور جب تمہارے بزرگ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے جو مشرک تھا کہا تھا کیا تو بتوں کو اپنے معبود بناتا ہے بیشک میں تجھ کو اور تیری قوم کو جو تیرے ساتھ اس فعل قبیح میں شریک ہیں صریح گمراہی اور بے ایمانی میں دیکھتا ہوں (شان نزول (اِذْ قَالَ اِبْراہِیْمُ) مشرکین کو شرک سے روکنے کے لیے ان کے مسلمہ بزرگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا قصہ نازل ہوا۔ منہ) اس کہنے سے بھی ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہی مطلب تھا کہ لوگ ہماری توحید کی طرف جھکیں اور شرک اور ہوا پرستی چھوڑ دیں جس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ خیال سمجھایا اسی طرح اس سے پہلے بھی ہم ابراہیم کو تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت دکھاتے تھے یعنی یہ سمجھاتے تھے کہ کل دنیا کیا آسمان کی چیزیں اور کیا زمین کی سب ایک زبردست طاقت کے نیچے کام کر رہی ہیں۔ کوئی ان میں سے مستقل موثر نہیں اس لیے دکھاتے اور سمجھاتے تھے کہ وہ ان میں غور کرتا کرتا پورا کامل یقین رکھنے والا ہوجائے اور درجہ بدرجہ ترقی کرے کیا مولانا رومی کا قول تم نے نہیں سنا اے برادر ! بے نہایت درگہیست ہرچہ بروے مے رسی بروے مایست چنانچہ اسی اصول سے ابراہیم ترقی کرتا گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس روز اس کی باپ سے گفتگو ہوئی تمام دن اسی خیال میں سوچتا رہا کہ دنیا کا مالک میں کس کو سمجھوں پھر جب رات کا اندھیرا اس پر ہوا تو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کو دیکھ کر بولا شاید یہ میرا رب ہے مگر چونکہ متلاشی تھا اس لئے جب وہ غروب ہوا تو یہ سمجھ کر کہ طلوع و غروب ہونا ایک قسم کا انفعال ہے جو واجب تعالیٰ کے مناسب حال نہیں کہنے لگا میں ان ڈوبنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے پسند نہیں کرتا۔ پھر تھوڑی دیر بعد جگمگاتا چاند دیکھ کر کہنے لگا شاید یہ میرا رب ہے کیونکہ ستارہ کی نسبت یہ بڑا ہے پھر جب وہ بھی قریب صبح کے کسی پہاڑ کی اوٹ میں غروب ہوگیا۔ تو کہنے لگا میں تو سخت غلطی میں ہوں اگر میرا حقیقی پروردگار مجھے ہدایت نہ کرے گا تو میں بھی گمراہوں میں ہوجائوں گا پھر اس سے پیچھے جب صبح ہوئی۔ تو سورج کو بڑی آب و تاب سے چمکتا ہوا اس نے دیکھا تو کہنے لگا شاید یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ تو بہت بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی غروب ہوا تو بولا۔ اے میرے بھائیو ! میری قوم کے لوگو ! میں تمہارے شرک سے جو تم کر رہے ہو بیزار ہوں اور جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ ان کو چھوڑ کر میں نے یکطرفہ ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف پھیرا ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے اب سے میں بالکل اسی کا ہو رہوں گا اور میں تم مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے جاہلانہ گفتگو میں جھگڑا شروع کیا تاہم اس نے نہایت نرمی سے ان کو سمجھانے کو کہا۔ بھائیو ! تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست کی ہدایت کی ہے اور تم جو مجھے اپنے مصنوعی معبودوں سے ڈراتے ہو میں تمہارے بنائے ہوئے ساجھیوں سے نہیں ڈرتا کہ مجھے تکلیف پہنچاویں گے لیکن جو میرا پروردگار چاہے وہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ اگر وہ کوئی تکلیف مجھے پہچانی چاہے۔ اور اس کی مصلحت ایسی ہی ہو تو بسر و چشم کیونکہ میرے پروردگار کو ہر چیز کا علم ہے اس کے ہر کام میں حکمت ہے کیا تم نصیحت نہیں پاتے کہ اتنی بات کو بھی سمجھو کہ دنیا کا مالک وہی ہوسکتا ہے جو کسی سے متاثر اور منفعل نہ ہو بجائے ڈرنے کے الٹے مجھے ہی ڈراتے ہو بھلا میں تمہارے مصنوعی ساجھیوں سے کیونکر ڈروں تم تو بےدلیل اللہ کا ساجھی بنانے سے نہیں ڈرتے پس تم خود ہی غور کرو کہ میں جو صرف اللہ ہی کی طرف ہو رہا ہوں اور تم جو اس کے ساجھی بھی بناتے ہو۔ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ امن کا مستحق ہے یہ بالکل صریح بات ہے کہ غلط واقعات اور واھی خیالات ہمیشہ غلط ہی نتیجہ دیا کرتے ہیں اگر تم کو بھی کچھ علم ہے تو سمجھ لو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائے اور اپنے ایمان کو بے راہی اور ظلم یعنی شرک سے بچاتے رہے انہی کو امن ہوگا اور عافیت اور وہی راہ راست پر ہیں۔ یہ ابراہیمی تقریر سن کر مشرک سخت شرمندہ ہوئے اور کچھ جواب نہ دے سکے کیونکہ یہ دلیل ہم (اللہ) نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل سمجھائی تھی پھر بھلا کون مقابلہ کرسکتا ہم جس کو چاہیں بلند درجہ عنایت کریں ہر ایک کی قدر افزائی اس کے مناسب ہوتی ہے تیرا پروردگار بڑی حکمت والا بڑا ہی علم والا ہے ہر ایک کے حال سے بخوبی واقف اور آگاہ ہے کسی کے بتلانے کی اسے حاجت نہیں۔ اور علاوہ اس غلبہ اور جیت کے ہم نے اس کو ایک لائق بیٹا اسحق اور ایک پوتا یعقوب جو اسرائیل کے نام سے مشہور ہے بخشا۔ ان سب کو ہم نے راہ راست دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت کی تھی اور ابراہیم کی اولاد میں دائود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو ہدایت کی تھی یہ ہدایت اور رفع شان کچھ انہی سے خاص نہیں بلکہ اسی طرح ہم عام نیکوکاروں کو بھی بدلہ دیا کرتے ہیں ان کے بھی رفع درجات اور ترقی مدارج کیا کرتے ہیں ان کے علاوہ اور کئی ایک صلحاء کو ہم نے ہدایت کی منجملہ ان کے زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس علیہم السلام کو ہدایت کی یہ سب ہمارے نیک بندے تھے اور ان کے سوا ابو محمد اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو راہ دکھائی اور ان سب کو ہم نے کل جہان کے لوگوں پر برتری دی اور ان کے بزرگوں اور خردوں اور برادری کے لوگوں میں سے بھی بعض کو ہدایت کی اور برتری دی اور برگزیدہ کیا اور راہ راست کی ہدایت کی یہ روش جو ان لوگوں کی تھی جن کا ذکر ہوا ہے اللہ کی راہنمائی سے تھی اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس روش کی ہدایت کردیتا ہے یہ لوگ باوجود اس قدر رفع درجات کے یہ نہیں کہ خودمختار تھے بلکہ نہایت ہی عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی میں سرگرم اور اگر فرضاً یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ساجھی بناتے تو ان کا بھی کیا کرایا سب اکارت ہوجاتا۔ اور اس معاملہ میں ان کا بھی کچھ لحاظ نہ ہوتا۔ مگر یہ ایسے نہ تھے بلکہ یہ اور لوگوں کو راہ راست بتاتے تھے کیونکہ انہی کو ہم نے کتاب اور سمجھ اور نبوت عطا کی تھی چنانچہ انہوں نے اس کو پہنچایا اور لوگ ان کی تعلیم اور صحبت سے بہرہ یاب بھی ہوئے گو کئی ایک منکر بھی رہے مگر انجام تابعداروں ہی کا رہا پس یہ لوگ عرب کے باشندے بھی اگر تیری نبوت سے منکر ہوں تو کوئی حرج نہیں تیری تعلیم کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے کیونکہ ہم نے اس کی خدمت گذاری کے لیے ایک ایسی مطیع اور فرمانبردار قوم کو تعینات کیا ہے جو اس کے کسی حکم سے منکر نہ ہوں گے پس تو ان منکرین کی بکواس کی پرواہ نہ کر اور ان لوگوں کو دیکھ جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی جن میں سے بعض بلکہ عموماً تیرے نسبی بزرگ بھی ہیں پس تو ان کی ہدایت اور طریق پر چل بالکل گھبراہٹ کو پاس بھی نہ آنے دے اگر تجھے زیادہ بھی کچھ کہیں سنیں اور بیہودہ گوئی سے پیش آویں تو تو کہہ دیجیو کہ میں تم سے اس تبلیغ کے بدلے کوئی مزدوری نہیں مانگتا جو مانگوں وہ تم ہی کو ہوئیں تو تمہاری اس بربادی پر کبھی بولوں بھی نہیں مگر چونکہ یہ قرآن سب جہان والوں کی خالص ہدایت ہے اس لئے بطور ادائے امانت اللہ کریم کے کچھ کہنا سننا ہی پڑتا ہے لیکن تیرے مخالف تو کچھ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ تیری ضد میں اپنے مسلمات کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی شان کے مناسب ! قدر نہیں کرتے (شان نزول ! (مَا قَدَرُوا للّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ) بعض یہودیوں نے جن کو دراصل اپنے مذہب سے کچھ بھی پرواہ نہ تھی صرف مخالفت قومی کی وجہ سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مقابلہ کرتے تھے ایک دفعہ مقابلہ میں مطلقاً نزول کتب سے منکر ہو بیٹھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں آفرینش سے اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی پر کوئی کتاب نازل ہی نہیں کی لطف یہ ہے کہ یہ بات کہنے والے خود اپنے آپ کو اہل کتاب کہلاتے ہیں پس تو ان سے پوچھ کہ جس کتاب کو حضرت موسیٰ لائے تھے وہ کس نے اتاری تھی جو نور اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی جس کو تم متفرق اوراق میں لکھ رکھتے ہو پھر کچھ تو ظاہر کرتے ہو اور بہت سا حصہ چھپا لیتے ہو۔ حالانکہ وہ باتیں تم کو بتلائی گئی تھیں جو تمہارے باپ دادوں کو بھی معلوم نہ ہوئی تھیں جن کا تم کو شکریہ چاہئے تھا۔ اگر اس کا جواب نہ دیں تو خود ہی کہہ کہ اللہ ہی نے اتاری تھی یہ کہہ کر پھر ان کو ان کی بکواس میں چھوڑ دے۔ پڑے جھک ماریں دین سے تو ان کو مطلب نہیں صرف ہنسی مخول میں کھیلتے ہیں توریت کے بعد بھی کئی ایک کتابیں ہم نے بھیجی ہیں جو اپنے اپنے وقت پر مفید ہوئیں اور اس بابرکت کتاب قرآن شریف کو جو اپنے سے پہلے کتاب کی تصدیق کرتی ہے ہم نے اس لئے اتارا ہے کہ تو مکہ اور اس کے اطراف والوں کو برے کاموں کے نتیجہ سے ڈراوے ضروری بات ہے کہ بعض لوگ اس سے انکار کریں گے اور بعض مانیں گے مگر یہ یاد رکھ کہ جو لوگ آخرت اور دوسری زندگی پر ایمان رکھتے ہوں گے اور جن کے دل میں یہ نہ سمایا ہوگا کہ جو کچھ ہے یہی محسوس دنیا ہے بس وہ تو ضرور ہی اس قرآن کو مانیں گے اور اس کی ہدایت کے موافق نماز اور عبادت نہ صرف معمولی ادا کریں گے بلکہ اس پر محافظت کرتے رہیں گے دانائوں کے نزدیک یہ حیرانی کی بات ہے کہ کفار تیری تکذیب کرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تو تو خود اس بات کا زور سے اظہار کرتا ہے اور بڑے دعویٰ سے بلند آواز سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کا افترا کرنے والے سے جو برے برے عقیدے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرے یا جو کہے کہ مجھے الہام ہوتا ہے حالانکہ اسے الہام کچھ بھی نہ ہوتا ہو یا جو کہے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے کلام جیسا کلام اتار سکتا ہوں ان سے بڑھ کر بڑا ظالم کون ہوگا۔ پس سوچ لیں اور جلدی نہ کریں ایسا نہ ہو کہ جلدی میں مکذب بنیں اور جو مکذبوں کے لیے عذاب ہے اس میں شامل ہوجائیں اب تو تو بھی ان کی اس جرأت اور دلیری سے حیران ہوتا ہوگا۔ اگر تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھے تو مزہ ہو جب یہ موت کی سختی میں ہوتے ہیں اور فرشتے لمبے ہاتھ کر کے ان کو سختی سے کہتے ہیں کہ چلو مرو اور ان قالبوں کو خالی کرو۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو تم جھوٹی اور ناسزا باتیں کہا کرتے اور اس کے سچے حکموں سے تکبر کرتے تھے اس کی وجہ سے آج تم کو ذلت کی مار ہوگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ فرمان بھی پہنچتا ہے کہ کیا وجہ ہے جیسا ہم نے تم کو پہلے بے زر و مال پیدا کیا ہے ویسے ہی تم ہمارے پاس آئے ہو۔ اور جو ہم نے تم کو دنیا کی نعمتیں عطا کی تھیں جو تمہارے غرور کا باعث ہوئی تھیں ان کو تو تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ہو نہ کچھ مال ہی ساتھ لائے اور نہ ہی تمہارے ساتھ سفارشی نظر آتے ہیں جن کو تم اپنے حق میں ہمارا شریک اور ساجھی سمجھے ہوئے تھے اور یہ جانتے تھے کہ وہ تم کو ہمارے عذاب سے رہائی دے سکیں گے۔ کیا ہوا آج تمہارے تعلقات سب ٹوٹ گئے اور جو تم اٹکل پچو گمان فاسد کیا کرتے تھے تم کو سب بھول گئے