سورة البقرة - آیت 72

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اے بنی اسرائیل! وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا۔ پھر تم یہ الزام ایک دوسرے کے سر تھوپ کر جھگڑا کر رہے تھے۔ اور جو کچھ تم چھپانا چاہتے تھے اللہ اسے ظاہر کرنے والا تھا

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(72۔74)۔ اس آخرالزماں رسول سے بھی تمہارا انکار کوئی تعجب کی بات نہیں تم تو موسیٰ سے بھی در پردہ کبھی منکر ہوجایا کرتے تھے یاد کرو جب ایک نفس کو مار کر تم نے اس میں تنازع کیا کوئی کہتا تھا اس نے مارا کوئی کہتا اس نے تمہارا گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ کو خبر نہ کرے گا مگر اللہ ایسے امور پر اپنے رسولوں کو ضرور مطلع کیا کرتا ہے اور جس امر کو تم چھپاتے تھے اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا کیونکہ ظاہری قانون قدرت ہے کہ ظاہری اسباب سے کام ہوتے ہیں پس ہم نے حکم دیا کہ اس گائے مذبوحہ میں سے ایک ٹکڑا اس مردے سے لگائو انہوں نے اسی طرح حسب الحکم لگایا وہ مردہ زندہ ہوگیا مگر افسوس کہ تم نے ایسے نشان قدرت دیکھ کر بھی ایسی بداعمالیاں اختیار کیں گویا روز جزا ہی بھول گئے اور جان لیا کہ مر کر اللہ کے سامنے نہیں جانا بلکہ زندہ ہی نہیں ہونا سو یاد رکھو ! بے شک اللہ تعالیٰ اسی طرح باسباب مؤثرہ مردوں کو زندہ کرے گا جس طرح کہ یہ تمہارا مردہ بظاہر بلا اسباب مگر در حقیقت بااسباب مؤثرہ زندہ کر کے دکھلا دیا اور پہلے زندہ کرنے کے تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جائو مگر تم ایسے کہاں تھے کہ اتنی بڑی نشانی دیکھ کر بھی ہمیشہ کیلئے مان لیتے بعد اس کے پھر تمہارے دل سخت ہوگئے پس وہ سختی میں مثل پتھروں کی ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت کہ پتھروں کی سختی تو طبعی ہے اور بعض پتھر ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے نہریں جاری ہوتی ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ وہ کسی قدر پھٹ جاتے ہیں پھر بسبب پھٹنے کے ان میں سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل آتا ہے۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر جاتے ہیں مگر تم ایسے ہو کہ ان پتھروں سے بھی سخت دل اور بے پرواہ بن رہے ہو۔ یہ مت سمجھو کہ اس کی سزا تم کو نہ ہوگی۔ بے شک ہوگی۔ اس لئے کہ ظالموں کی سرکو بی سے خاموش رہنا غافلوں کا کام ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے