سورة المآئدہ - آیت 44

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق اللہ کے فرمانبردار نبی ان لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جو یہودی [٨٠] بن گئے تھے اور خدا پرست اور علماء بھی (اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے) کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کے ذمہ دار بنائے گئے تھے اور وہ اس کے (حق ہونے کی) شہادت بھی دیتے تھے لہٰذا تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر سے معاوضہ کی خاطر [٨١] بیچ نہ کھاؤ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(44۔56) بیشک ہم نے توریت اتاری تھی اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اسی کے ساتھ اللہ کے فرمانبردار بندے انبیاء اور مشائخ اور علماء یہودیوں کے درمیان فیصلے کرتے رہے کیونکہ کتاب اللہ کی محافظت ان پر ڈالی گئی تھی۔ اور وہ اس کے نگہبان تھے۔ جس طرح یہ اللہ تعالیٰ کے بندے بلا خوف لومَۃَ لائم سچے فیصلے کرتے تھے۔ تمہیں اے کتاب والو ! کیا ہوا کہ ان کی روش چھوڑ کر نفس کے بندے ہوگئے ہو اور مخلوق سے ایسے ڈرتے ہوجیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے پس مناسب ہے کہ تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ (خدا) ہی سے ڈرو اور میرے احکام کو بگاڑ کر دنیا کے ناچیز دام نہ لو۔ کمائی کرو مگر جائز۔ سچے فیصلے کرو۔ کتمانِ حق نہ کرو جو لوگ باوجود طاقت اور وسعت کے اللہ کے اتارے ہوئے حکم سے فیصلہ نہ کریں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی کافر ہیں۔ سنو ! ہم بتلاتے ہیں کہ احکام الٰہی کیا ہیں جو موجودہ توریت میں بھی ہیں ہم نے اس میں حکم کیا تھا کہ جان کے بدلے جان ماری جائے اور آنکھ کے عوض آنکھ نکالی جائے اور ناک کے بدلے ناک کاٹی جائے اور کان کے عوض کان کاٹا جائے اور دانت کے بدلے دانت اور زخم بھی قابل عوض ہیں۔ ہاں جو شخص اس کو یعنی اپنا عوض لینا چھوڑ دے وہ اس کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے یعنی اس فیاضی کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اس کے قصور معاف کرے گا۔ اور یہ بھی اس میں بتلایا تھا کہ جو کوئی باوجود طاقت کے اور امکان کے اللہ کے اتارے ہوئے حکم سے فیصلہ نہ کریں وہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہیں۔ اور انہیں انبیاء کے قدم بہ قدم ہم نے مسیح ابن مریم کو اس سے پہلے مضامین حَقَّہ یعنی توریت کی تصدیق کرنے والا بھیجا اور اس کو کتاب انجیل بھی دی اس میں ہدایت اور نور تھا اور توریت کی جو اس سے پہلے اتری ہوئی تھی‘ تصدیق کرتی تھی اور وہ انجیل ہدایت اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت تھی۔ اب بھی انجیل والوں کو لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اس میں احکام اتارے تھے جن کا کسی قدر اب بھی اس میں پتہ چلتا ہے ان سے فیصلہ کریں۔ اور سن لیں کہ جو کوئی دانستہ باوجود وسعت اور طاقت کے اللہ کے اتارے ہوئے احکام سے فیصلہ نہ کریں گے وہی بدراہ ہیں۔ اور ان سے بعد ہم نے اے رسول ! تیری طرف سچی کتاب جس کا نام قرآن شریف ہے اتاری ہے جو اپنے سے پہلی کتاب کے سچے مضمونوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے خلط ملط واقعات پر جو اس کے نادان پیروئوں کی حسن اعتقادی یا خود مطلبی سے درج ہوگئے ہیں محافظ اور نگہبان ہے۔ پس جن مضامین میں قرآن شریف کتب سابقہ سے موافق ہے وہ صحیح سمجھو۔ جیسے توحید اور بعض احکام شریعت رسالت۔ نبوت۔ قیامت وغیرہ اور جن میں قرآن ان سے مخالف ہے جیسے تثلیث۔ ابنیت مسیح۔ کفارہ وغیرہ وہ غلط۔ پس جبکہ قرآن کے دستخطوں اور تصحیح پر ہی دارومدار ہے تو تو اے پیغمبر ! ان اہل کتاب میں فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے حکموں سے جو تیری طرف اترے ہیں فیصلہ کیجئیو کیونکہ یہ قطعی اور صحیح ہیں اور ان کے سوا مشتبہ ہے اسی پر مضبوط رہئیو۔ اور جو تیرے پاس سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات نفسانی کے پیچھے نہ ہوجیئو اس میں ان کو بھی کسی قسم کا رنج نہ ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے تم بنی آدم میں سے ہر ایک کو وقت بوقت شریعت اور مذہب بتلایا ہے جو دراصل سب ایک ہی ہیں زمانہ کی رفتار سے جو لوگوں نے کجی ڈال رکھی تھی وہ اب آخری زمانہ میں اے پیغمبر ! تیرے ذریعہ نکال دی جائے گی اور اگر باوجود ان اختلافات کے اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک جماعت کردیتا۔ کون اسے روک سکتا تھا۔ کون اس کے قلم کو پھیر سکتا تھا لیکن وہ جبر نہیں کرتا تاکہ تم کو تمہارے دئیے ہوئے اختیارات اور قوی عطا شدہ میں آزماوے اور تمہاری محنت کا جو تم اختیار سے کرو دوسروں پر اظہار کرے پس تم نیک کاموں کو لپکو اور جلدی کرو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تم سب نے پھر کر جانا ہے وہ تم کو قیامت کے دن تمہارے اختلافی امور سے خبر دے گا اور فیصلہ کرے گا اس روز حقانی اور سچے لوگ اپنے سچ کا پورا بدلہ پائیں گے ( صفحہ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمُ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢) اور تجھے تاکیدی حکم ہے کہ تو ان میں اللہ کے اتارے ہوئے قرآن سے حکم کیجئیو اور ان منکرین کی خواہشات پر نہ چلئیو اور ان سے بچتے رہئیو۔ کہیں کسی حکم سے جو اللہ تعالیٰ نے تیری طرف اتارا ہے تجھے بھٹکا نہ دیں اگر وہ اس سچی تعلیم سے جو بذریعہ قرآن تیرے پاس پہنچی ہے جس سے ان کی کجروی نکال دی گئی ہے سرتابی کریں تو یقینا جان کہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو کوئی عذاب پہنچاوے اور اگر سچ پوچھو تو ان لوگوں میں سے بہت سے بدکار ہیں جن کو نہ اللہ تعالیٰ سے مطلب ہے نہ رسول سے نہ دین سے نہ مذہب سے۔ فقط اپنے مطلب کے یار ہیں۔ جس کی یہ مثل بالکل ٹھیک ہے۔ ” ہندو ہو یا مسلمان؟“ ” جدھر رعایت ہو“ کیا پھر تجھے اور تیرے فیصلے کو چھوڑ کر جاہلیت اور سکھا شاہی کی حکومت چاہتے ہیں؟ یعنی مطابق شریعت فیصلے نہیں کراتے بلکہ رسمی طور سے کرانا چاہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ایمانداروں کے لئے اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہوسکتا ہے۔