سورة الفجر - آیت 1

َالْفَجْرِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

فجر کی قسم [١]

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔20) سنو جی ایک روز تمہارے نیک وبد اعمال کی جزا وسزا کے لئے مقرر ہے جو منکر ہیں ان کو ہم حلفیہ سناتے ہیں کہ قسم ہے فجر کی اور قسم ہے دس راتوں کی جو ماہ ذی الحجہ کی عرب میں مشہور ہیں اور قسم ہے ہر جفت چیز کی اور قسم ہے ہر طاق ! چیزکی شیعہ کی ایک روایت میں ہے شفع سے مرا دامام حسین ہیں اور وتر سے حضرت علی (رض) یا للعجب حضرت فاطمہ (رض) کا ذکر ہی نہیں۔ ١٢ منہ اس قسم کی قسمیں کھانے کا عرب میں عام دستور تھا۔ قیس مجنوں کا شعر ہے ؎ الازعمت لیلی اننی لا احبھا بلیٰ ولیال العشر والشفع والوتر یعنی لیلی کہتی ہے مجھے اس سے محبت نہیں قسم ہے عشرہ کی راتوں کی قسم ہے جوڑے اور طاق کی قرآن مجید چونکہ محاورہ عرب میں نازل ہوا ہے اس لئے اس قسم کی قسموں کا اس میں ذکر آتا ہے۔ ١٢ منہ اور قسم ہے رات کی جب چلتی ہے جس بات کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے بے شک ہو کر رہے گا" ضرور اس قسم میں عقلمند انسان کے لئے اعتبار ہے یا ہونا چاہیے تم مشرکین عرب جو قیامت کے منکر ہو کیا تم نے کبھی فکر نہیں کیا کہ تمہارے پروردگار نے اس بڑی طاقتور ارم کی قوم عاد کے ساتھ کیا برتائو کیا سب کو ایسا تباہ کیا کہ آج کوئی ان کا نام لیوا یا شناسا بھی نہیں رہا اور ان جیسی زور آور کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں ہوئی بڑے شاہ زور تھے مگر جب الٰہی عذاب نازل ہوا تو سب فنا ہوگئے اور عاد کے ساتھ ہی قوم ثمود کو بھی تباہ کردیا جنہوں نے جنگلوں میں پہاڑ کھود کھود کر گھر بنائے تھے ارم کی بابت کئی اقوال ہیں میں نے یہ اختیار کیا ہے کہ ارم عاد قوم کا مورث اعلیٰ تھا پس ارم عاد کا بدل ہے یہ نام اسی طرح ہے جیسے قریش جو مورث اعلیٰ کا نام ہے مگر قوم پر بولا جاتا ہے۔ ١٢ منہ اور اسی انکار کی وجہ سے بڑی قوت والے فرعون کو ہلاک کردیا یہ سب لوگ ایسے تھے کہ انہوں نے ملک میں سرکشی کی تھی یعنی ان بلاد میں بڑا فساد پھیلایا تھا شرک وکفر کیا یہاں تک کہ الٰہی کے مدعی بنے پس تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا ایساکوڑا مارا کہ نام ونشان ان کا نہ چھوڑا مغرور لوگ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس پر مطلع نہیں یا مطلع ہے مگر پکڑتا نہیں تو ہم لائق مواخذہ نہیں اسلئے تم بلند آواز سے کہہ دو کہ تمہارا پروردگار تمہارے نیک وبد پر مطلع ہے اور جلدی نہیں پکڑتا بے شک وہ بدکاروں کی گویا گھات میں ہے جب پکڑے گا اچانک پکڑے گا مگر الٹی عقل والا انسان اس ڈھیل سے الٹا نتیجہ نکالتا ہے جب ایسے انسان کو اس کا پروردگار کسی دھندے میں پھنسا کر انعام کرتا ہے مثلاً خانہ داری کے جھمیلے میں پھنس کر صاحب اولاد ہوجاتا ہے یا تجارت میں مشغول ہو کر مالدار ہوجاتا ہے تو کہتا ہے میرے پروردگار نے مجھ پر مہربانی فرمائی ہے یہاں تک تو ٹھیک کہتا ہے اور جب کسی اور دھندے میں پھنسا کر اس پر رزق تنگ کردیتا ہے یا مال اولاد دی ہوئی چھین لیتا ہے تو بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کے کہتا ہے میرے رب نے مجھے بے وجہ ذلیل کیا ہرگز بے وجہ نہیں بلکہ اس کا سبب ایک نہیں کئی ایک ہیں منجملہ یہ کہ تم لوگ دولت اور زور کے گھمنڈ ! میں جتنا تم سے ہوسکتا ہے تکبر کرتے ہو پہلا تکبر تمہارا یہ ہے کہ تم لوگ یتیم کی دل سے عزت نہیں کرتے یعنی اس کو قابل رحم نہیں جانتے اور ذلیل وخوار جانتے ہو یہ کام اللہ کے نزدیک تمہاری نعمت کے زوال کا سبب ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ غریبوں مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے ہو اپنے پاس سے اور دوسرے لوگوں کو کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتے ہو کسی کو خود کھلانے کی توفیق نہ ہو دوسروں کو ترغیب دینے میں کیا لگتا ہے مگر تم لوگ ایسے کچھ ڈبل بخیل ہو کہ نہ از خود کسی کو فائدہ پہنچاتے ہو بلکہ دوسروں پر ظلم کرتے ہو اور مردوں کا ترکہ سارا سمو لچہ کھا جاتے ہو بہنیں ہوں تو ان کو نہیں دیتے لڑکیاں ہوں تو ان کو نہیں دیتے یتیموں کا مال قبضے میں آئے تو اسے کھا جاتے ہو کیونکہ تم لوگ طبعا بخیل ہو اور مال کی محبت تم لوگوں کو بہت زیادہ ہے اتنی کہ اس محبت میں اندھے ہو کر اپنے پرائے میں تمیز نہیں کرتے تم کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے