وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ
برجوں والے آسمان [١] کی قسم
(1۔22) قسم ہے بلند آسمان کی اور یوم موعود کی جس کا ہر نبی نے وعدہ دیا ہے اور قسم ہے آنے والے شاہد کی جو ذات رسالت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والتحیہ ہے اور مشہود کی جو روز قیامت ہے دہکتی ہوئی آگ کی خندقوں ! والے مشرک لوگ جنہوں نے مومنین کو آگ میں جلایا دنیا ہی میں اللہ کی طرف سے لعنت کئے گئے تھے جب وہ ان خندقوں پر بیٹھے ہوتے اور اللہ کے بندے ایمانداروں سے جو کچھ تکلیف دہی کے کام ان کے ماتحت لوگ کرتے تھے وہ بڑے لوگ بطور تماشہ اس کو دیکھتے تھے سننے والے کا خیال ہوگا کہ وہ مومن لوگ قصور وار ہوں گے اخلاقی یا قومی یا حکومتی جرم کئے ہوں گے سو ایسے لوگوں کو واضح ہو کہ ان مومنوں کا یہی ایک کام ان ظالموں کو برا معلوم ہوا تھا کہ اللہ واحد غالب صفات حسنہ سے متصف اللہ پر کامل ایمان لائے تھے اور اس کے سوا کل معبودوں کو چھوڑ چکے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت جس کے قبضے میں ہے اور وہی اللہ ہر چیز پر حاضر اور واقف ہے اس لئے ان کو تسلی تھی کہ جو کچھ یہ لوگ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں یہ بھی اللہ دیکھتا ہے اور جو ہم کو مصیبت پہنچ رہی ہے وہ بھی دیکھتا ہے اور ہمارے منہ سے جو نکلتا ہے۔ ؎ بجرم عشق تو ام میگشند غو غائیست تو نیز برسر بام آکہ خوش تماشا ئیست یہ بھی سنتا ہے اس لئے ہمیں کوئی فکر نہیں انجام کار فتح ہماری ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اللہ کی طرف سے اعلان ہے کہ جو لوگ ایماندار مردوں اور عورتوں کو محض ایمان کی وجہ سے تکلیف دیا کرتے ہیں پھر وہ توبہ بھی نہیں کرتے ان کی سزا کے لئے جہنم کا عذاب اور جلانے والی تکلیف ہے اور جو لوگ ایمان لا کر نیک کام بھی کرتے ہیں ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جہاں بے غم بے فکر رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے دنیا میں اہل کفر بڑے مست پھر رہے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ تیرے پروردگار کی پکڑ بڑی سخت ہے وہ جس کو پکڑے کوئی چھڑا نہیں سکتا وہی ہر ایک چیز کو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر مدت مقررہ کے بعد اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے جس پر کہا جاتا ہے چار دن کی چاندنی آخر اندھیری رات ہے اور وہ باوجود قدرت تامہ کے گنہگار تائبوں کے حق میں بڑا بخشنے والا بڑا مہربان مالک تاج وتخت بڑی عزت اور بڑی بزرگی والا جو کام کرنا چاہے اسے کر گزرنے والا اس لئے چاہیے کہ گمراہ بندے اس کی طرف جھکیں یہ الٹے اکڑتے ہیں جیسے پہلے لوگ اکڑتے تھے جس کی پاداش میں وہ سب تباہ ہوئے کیا تم کو ان لوگوں کی فوجوں کی اطلاع آئی ہے؟ یعنی فرعون اور ثمود وغیرہ کی اتباع کی آئی تو ضرور ہوگی اور تم نے ان لوگوں کو سنائی بھی ہوگی مگر اس کا اثر نہیں بلکہ کافر لوگ انبیاء علیہم السلام کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے قرآن کی نسبت ان کا خیال اساطیر الاولین وغیرہ غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن بڑی عظمت اور بزرگی کی کتاب ہے جس کا اصل ماخذ لوح محفوظ میں ہے جو اللہ کی صفت علم کا یا اس کی اول مخلوق کا نام ہے۔ واللہ اعلم شیعوں کی بعض روایات و (کافی) میں ہے کہ شاہد سے مراد ذات رسالت (علیہ السلام) ہیں اور مشہود سے مراد جناب علی مرتضیٰ ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں آیا ہے جِئْنابِکَ عَلٰی ھؤُلَآئِ شَہِیْدًا مگر جناب علی (رض) کی بابت دعویٰ ثبوت طلب ہے ١٢ منہ حدیث شریف میں ہے کہ سابق زمانہ میں عرب کے ایک صوبہ میں ایک بادشاہ تھا حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں اس بادشاہ کا نام یوسف اور اس علاقہ کا نجران آیا ہے اس بادشاہ نے خندقیں کھودوا کر ان میں آگ جلوائی اور اس زمانہ کے موحدین مومنین کو اس آگ میں ڈال کر آپ مع خدم و حشم کے تماشہ دیکھتے رہے اس کی طرف اشارہ ہے تفصیل اس کی مطولات میں ہے اللہ اعلم ١٢ منہ قرآن مترجم مولوی مقبول احمد شیعہ میں اس لفظ کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ ” بڑے عرش کا مالک“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے المجید کو عرش کی صفت سمجھا ہے حالانکہ المجید مرفوع ہے عرش کی صفت ہوتا تو مجرور ہوتا۔ نعوذ باللّٰہ من زلۃ القلم ١٢ منہ