هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
کیا آپ کو موسیٰ کی خبر پہنچی [١١] ہے؟
(15۔26) تیرے جیسی تعلیم دینے والے رسول پہلے بھی گذرے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک حضرت موسیٰ بھی رسول تھے کیا تجھے موسیٰ کی خبر پہنچی ہے ؟ خاص کر اس وقت کی جب اس کے پروردگار نے مقدس جنگل طویٰ میں اس کو بلایا۔ حکم دیا کہ فرعون جو مدعی الوہیت ہے اس کے پاس جا کیونکہ وہ سرکش ہوگیا ہے انسان ہو کر الوہیت کا مدعی بن بیٹھا ہے پس تو اس سے کہہ اے فرعون کیا تجھے اس بات کی رغبت ہے کہ میں تجھے نصیحت کروں تو اسے قبول کر کے پہلے گناہوں سے پاک صاف ہوجائے اور تجھے شوق ہے کہ میں تجھے اللہ کے بتانے سے ہدایت کروں تو تو اس کو قبول کر کے اللہ کے عذاب سے ڈر جائے یعنی اے شاہ مصر میں جو کچھ کہتا ہوں۔ خیر خواہی کی نیت سے کہتا ہوں آپ بھی توجہ سے میری گذارش کو قبول کریں اس نے کہا تیرے اس دعویٰ رسالت پر کچھ دلیل بھی ہے ؟ ہے تو لا پس اس موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو بڑی نشانی دکھائی یعنی اس کے دربار میں لکڑی پھینکدی جو سانپ بن گئی پھر بھی اس فرعون نے تکذیب اور بے فرمانی ہی کی اور پیٹھ پھیر کر حضرت موسیٰ کے برخلاف کوشش کرنے لگا چونکہ اللہ کی طرف سے اس کی تباہی کے دن قریب آگئے تھے اس لئے جو اسے سوجھتی الٹی سوجھتی پھر اس نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور بلند آواز سے پکار کر کہا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں کیونکہ میں تم سب کی پرورش کرتا ہوں میرے سوا اور کوئی تمہارا رب اور الہ نہیں ہے فرعون اس دعویٰ پر اڑا رہا اور اس کے خوش آمدی ارکان اس کے اس غلط دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہمہ تن کوشاں تھے پس اللہ نے اس کو آخرت اور دنیا دونوں کے عذاب میں پکڑا دنیاوی عذاب تو یہ تھا کہ دریا میں اسے غرق کیا آخرت کا عذاب یہ ہے کہ صبح وشام دوزخ ! کی آگ میں ڈالے جاتے ہیں (! النار یعر ضون علیھا غدوا و عشیا الآیۃ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ منہ) بے شک اس واقعہ فرعون میں ڈرنے والوں کے لئے بڑی عبرت کا مقام ہے کہ ایک کمزور انسان الوہیت کا مدعی ہوا اور انجام اس کا یہ ہو کہ مع اپنے محافظ دستہ فوج کے دریا میں غرق کیا جائے اور نہ وہ خود اپنے آپ کو عذاب اللہ سے بچائے نہ کوئی جماعت اس کو بچا سکے اس سے سمجھو کہ جھوٹے مدعی کا انجام اچھا نہیں اور سچوں سے مقابلہ کرنے والوں کا خاتمہ بھی ٹھیک نہیں