إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
سوائے ایسے رسول کے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا) پسند کرے۔ پھر وہ [٢٤] اس (وحی) کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے
مگر انبیاء کرام میں سے جس رسول کو جتنا دینا پسند کرتا ہے اطلاع دیتا ہے یعنی بذریعہ وحی بمعرفت جبرئیل جب پیغام بھیجتا ہے۔ تو اس کے آگے اور پیچھے فرشتوں کی گارد کا پہرا بھیجتا ہے مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ چلا آرہا ہے کہ بعد زمانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبوت ختم ہے کیونکہ قرآنی نص صریح ہے خاتم النبین اور احادیث قریب تواتر کے آئی ہیں لا نبی بعدی یعنی حضور (علیہ السلام) نے فرمایا ہے میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ یہاں تک فرمایا لو کان بعدی نبی لکان عمر یعیگ میرے بعد نبی ہوسکتا تو عمر (رضی اللہ عنہ) نبی ہوتا لیکن وہ بھی نہیں کیونکہ لا نبی بعدی۔ ہمارے ملک پنجاب میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ١٣٦١ھ میں پیدا ہوئے آپ آہستہ آہستہ سلسلہ وار نبوت تک پہنچے اس لئے انہوں نے اس آئت سے اجراء نبوت کا استدلال کر کے اپنی نبوت کا ثبوت دیا ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں۔ اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کیلئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپکی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص امتی نہ ہو اسپر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو۔ سو اللہ نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا۔ لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپکی متابعت میں اپنا وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرتﷺپر ختم ہوگئی ہے مگر ظلی نبوت جسکے معنے ہیں کہ فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جا دے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الٰہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہوجاوے مرزا صاحب کا دعوی یہ تھا کہ نبوت مستقلہ تو ختم ہے اور خاتم النبیین کے معنی وہ یہی کرتے ہیں کہ براہ راست نبوۃ پانیوالے نبیونکا ختم کرنیوالا دوسری قسم نبوت مستفیضہ ہے یعنی پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کے فیض اتباع سے بنی بننا سو وہ کہتے ہیں یہ جاری ہے چنانچہ میں (مرزا) اسی قسم کا نبی ہو۔ اس اصولی تقریر کے بعد مرزا صاحب کا اثبات نبوت سننا چاہئے۔ مرزا صاحب اپنی اس نبوت کا ثبوت یوں دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کیلئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے حالانکہ یہ انکا سراسر افترا ہے بلکہ جس نبوت کا دعوی کرنا قرآن شریف کی رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا گیا صرف یہ دعوی ہے کہ ایک پہلو سے میں امتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں بات یہ ہے کہ جیسا مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ” اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ “ اب واضح ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بخبر نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہوسکتے جبسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اللہ نپے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہوسکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی (حقیقۃ الوحی ص ٣٩٠۔ ٣٩١) پہلے تو ہمیں یہ دکھانا ہے کہ جناب مرزا صاحب نے جو حضرت مجدد قدس سرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ امور غیبیہ جاننے والا نبی کہلاتا ہے یہ صحیح نہیں۔ بالکل غلط ہے حضرت مجدد صاحب کا یہ مکتوب گرامی بنام محمد صدیق مکتوبات مجددیہ مرقوم ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ اعلم ایھا الصد یق ان کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاھا و ذلک لا فرا دمن الانبیاء و قد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم و اذ اکثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثا (کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) و ھذا غیر الالھام و غیر الالقاء فی الروع و غیر کلام الذی مع الملک انما یخاطب بھذا الکلام الانسان الکامل واللہ یختص برحمتہ من یشاء (دفتر دوم مکتوبات نمبر ٥١) یہ ہے اصل عبارت مکتوبات مجددی کی اس عبارت میں جس فقرہ پر ہم نے خط دیا ہے مرزا صاحب نے اسے حذف کرکے باقی سارا خود ازالہ اوہام میں نقل کرکے ترجمہ یوں کیا ہے یعنی اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جل شانہ کا بشر کے ساتھ کبھی روبرو اور ہمکلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو اللہ تعالیٰ کے ہمکلام ہوتے ہیں وہ خواص ابنیا میں سے ہیں اور کبھی یہ ہم کلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہمکلامی کا پاتا ہے‘ اس کو محدث بولتے ہیں اور یہ مکالمہ الٰہی از قسم الہام نہیں بلکہ غیر الہام ہے اور یہ القاء فی الروع بھی نہیں ہے اور نہ اس قسم کا کلام ہے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتا ہے اس کلام سے وہ شخص مخاطب کیا جاتا ہے جو انسان کامل ہو اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے۔ (ازالہ اوہام حصہ اول ص ٩١٥) اس سے پہلے مرزا صاحب اپنی الہامی کتاب ” براہین احمدیہ“ میں بھی اس مکتوب مجددی کو نقل کرچکے ہیں۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ ” امام ربانی (مجدد) صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت (اللہ تعالیٰ) سے مشرف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے“ ص ٥٤٦ مجدد صاحب کی اس عبارت میں خود مرزا صاحب کو تسلیم ہے کہ ایسا ملہم غیر نبی ہے پس اس تصریح مجددی اور مرزا صاحب کی اپنی دوشہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ” مرزا صاحب کا یہ دعویٰ کہ حضرت مجدد صاحب نے کثرت سے امور غیبیہ پانے والے کو نبی کہا ہے “ غلط اور مجدد صاحب پر افترا ہے اس انکشاف کے بعد ہم مرزا صاحب کے امور غیبیہ کی پڑتال کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آپ پر جو امور غیبیہ کھولے جاتے تھے جن کی وجہ سے آپ نے منصب نبوۃ پایا ہے کہاں تک صحیح ثابت ہوتے تھے۔ نمونہ غیب :۔ مرزا صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار کو اس کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کی۔ والد لڑکی نے انکار کردیا تو مرزا صاحب نے الہام شائع کیا کہ یہ لڑکی دوسری جگہ بیاہی گئی تو بیوہ ہو کر بھی میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ چنانچہ مرزا صاحب کے الہامی الفاظ درج ہیں جن کو مرزا صاحب بڑی خفگی کے لہجہ میں اللہ کی طرف سے سناتے ہیں۔ ” اس اللہ نے اس تمام گروہ کے حق میں مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ کذ بوابا یتنا و کانوا بھا یستہزئون فسیکفیھم اللہ و یردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید یعنی ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی اور ان سے ٹھٹھا کیا سو اللہ ان کے شر دور کرنے کے لئے تیرے لئے کافی ہوگا اور انہیں یہ نشانیاں دکھلائے گا کہ احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور اللہ اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا۔ یعنی آخر کار وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور اللہ سب روکیں درمیان سے اٹھائے گا اللہ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تیرا رب ایسا قادر ہے کہ جس کام کا وہ ارادہ کرے وہ اپنے منشا کے موافق ضرور پورا کرتا ہے “ (اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم ص ١١٣) اس الہام کی تشریح میں مرزا صاحب لکھتے ہیں۔ ” نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سیتج کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری یہ بات ہرگز نہ ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو ان ٹل اللہ تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے (حوالہ مذکور) اس الہام اور اس کی معقول تشریح سے جو امر ثابت ہوتا ہے محتاج بیان نہیں نہ کسی تشریح کا محتاج ہے نہ تاویل کا کیونکہ مضمون صاف ہے کہ یہ نکاح ضرور ہوگا اور ضرور ہوگا اس تشریح اور تفصیل کے بعد گو کسی اندرونی یا بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں تاہم ایک بیان مرزا صاحب کا ہم اور پیش کرتے ہیں تاکہ کسی اپنے بیگانے کو مجال سخن نہ رہے۔ مرزا صاحب ١٩٠١ئ کو عدالت گورداسپور میں ایک شہادت دینے کو پیش ہوئے تو عدالت میں آپ سے اس نکاح کی بابت سوال ہوا جس کے متعلق آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ ” عورت اب تک زندہ ہے میرے نکاح میں ضرور آئے گی امید کیسی کامل یقین ہے یہ اللہ کی باتیں ہیں ٹلتی نہیں ہو کر رہے گی“ (مرزا صاحب کی شہادت مندرجہ اخبار الحکم قادیاں ١٠ اگست ١٩٠١ئ۔) ان تصریحات کے بعدواقعہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب ساری عمر کوشش کرتے کرتے ٢٦ مئی ١٩٠٨ئ کو انتقال کر گئے اور مسماۃ مذکورہ آج (جنوری ١٩٣٠ئ۔) تک اپنے بال بچوں میں بخوشی و خورمی قصبہ پٹی ضلع لاہور (پنجاب) میں زندہ موجود ہے یہ ہے مرزا صاحب کے الہامی غیوب کی ایک مثال۔ دوسرا نمونہ :۔ جون ١٨٩٣ئ میں مرزا صاحب کا امرتسر میں پادری عبد اللہ آتھم عیسائی سے پندرہ روز تک مباحثہ ہوتا رہا اخیر مباحثہ کے مرزا صاحب نے اپنا ایک غیبی الہام سنایا جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ” آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب آلہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو اللہ بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے اللہ کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے“ (کتاب جنگ مقدس ص ١٨٨) اس بات پر سب متفق ہیں کہ انسان کو اللہ بنانے والا فریق یقینی پادری آتھم تھا کیونکہ اس کا مذہب یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ْ معبود اور اللہ کا بیٹا تھا چنانچہ اسی مسئلہ پر اس کا مزرا صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوا باوجود اس کے پادری آتھم پندرہ ماہ میں مرنے کی بجائے قریبا دو سال زیادہ مدت لے کر مرا۔ کیونکہ اس الہامی پیشگوئی کے مطابق پادری آتھم کو ستمبر ١٨٩٤ئ تک مر جانا چاہیے تھا حالانکہ وہ جولائی ١٨٩٦ئ میں مرا چنانچہ اس بارے میں مرزا صاحب کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ ” چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ٢٧ جولائی ١٨٩٦ئ کو بمقام فیروز پور فوت ہوگئے ہیں۔“ (کتاب انجام آتھم ص ١) ان تصریحات اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ الہام غیب دان اللہ کی طرف سے نہ تھا ورنہ غلط نہ ہوتا۔ اسی طرح کے ان کے ادعاے الہام اور بہت سے ہیں۔ ہم نے جہاں تک مرزا صاحب کے غیبی امور کو جانچا ان میں جتنے امور کی بابت انہوں نے ادعا کیا ہے ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں پایا وہ سب یہاں درج نہیں ہوسکتے ہم نے ان کو ایک مستقل کتاب میں جمع کرکے ان پر مکمل بحث کی ہوئی ہے جس کا نام ” الہامات مرزا “ اطلاع مرزا صاحب نے اس خاکسار کے حق میں بھی ایک غیبی خبر شائع کی تھی وہ ص جلد ہذا پر درج ہے۔ اللھم ارنا الحق حقا والباطل باطلا علماء سلف سے خلف تک سب اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ علم غیب اللہ کے سوا کسی کو نہیں نہ ذاتی نہ وہبی نہ کسبی مگر آج کل بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب حاصل تھا۔ علم غیب سے مراد کل اشیاء کائنات کا علم ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آئت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے‘ اور ہمارے رسول تو سید الرسل ہیں اس لئے آپکو تو علم غیب کامل اکمل حاصل ہوگا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ غلطی دراصل آئت کی نحوی ترکیب نہ سوچنے سے لگی ہے۔ نحوی ترکیب سے الا حرف استثناء کے بعد کا حصہ مستثنی ہے اور مستثنی میں جو حکم ہوتا ہے وہ پہلے حصے کے خلاف ہوتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے حصے میں کیا مذکور ہے کچھ شک نہیں کہ پہلے حصے میں دو چیزیں منفی ہیں (١) احدا (٢) دوسرا غیبہ۔ احد سے مستشنی یقینا رسول ہے کچھ شک نہیں کہ ” غیبہ“ کا مفہوم سلب کلی ہے استثناء کے بعد مستثنی منہ کی نقیض ہے جو موجبہ جزئیہ ہے پس ان دونوں مستثنی منہ اور مستثنی یعنی سلب اور ایجاب سے جو وہ قضیے ماخوذ ہوتے ہیں وہ یوں ہیں۔ لاشی من الغیب بمعلوم لاحد بعض الغیب معلوم لرسل پہلا قضیہ لا یظہر علی غیبہ احدا سے ماخوذ ہے دوسرا الا من ارتضی من رسول کا مفہوم ہے پس اس جزئیہ موجبہ سے کسی رسول یا نبی کی غیب دانی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ غیب دانی کے معنی ہیں کل غیوب کا جاننا اسی کی قرآن مجید میں نفی کی گئی ہے قیاس استشنائی :۔ قرآن مجید میں جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیب دانی کی نفی کی ہے وہاں منطقی شکل میں قیاس استشائی سے کام لیا ہے جو اعلی درجہ کا برہان ہے چنانچہ ارشاد ہے لو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر و ما مسنی السوء (پ ٩ ع ١٣) یعنی میں (آنحضرت) اگر غیب جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ منطقی اصطلاح میں یہ قیاس استشنائی ہے جس کے دونوں اجزا مذکور ہیں پہلے کا نام مقدم ہے دوسرے کا نام تالی حرف لو رفع تالی پر دلالت کرنے والا ہوتا ہے چنانچہ دوسری آیت جس میں اثبات توحید کے متعلق قیاس استثنائی ہی سے کام لیا گیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔ لو کا نا فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا (پ ١٧ ع ٢) اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں خراب ہوگئے ہوتے۔ بعینہ اس آیت کی تقریر کی طرح پہلی آیت کی تقریر ہے یعنی آسمان و زمین کا برباد ہونا متعدد معبوددں کے وجود کو لازم ہے اس طرح خیر کثیر جمع کرنا اور برائی سے محفوظ رہنا علم غیب کو لازم ہے جس طرح آیت توحید میں لو کا حرف دلالت کرتا ہے کہ آسمان و زمین خراب نہیں ہوئے اور ان کے خراب ہونے سے تعدد الہ کی نفی ہوتی ہے اسی طرح آیت غیب میں حرف لو دلالت کرتا ہے کہ خیر کثیر کا جمع کرنا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنا نہیں ہوا اور ان کے نہ ہونے سے آنحضرت کا عالم الغیب ہونا منفی ہوتا ہے مختصر لفظوں میں اہل منطق کا قانون یہ ہے ” انتفاء التالی یستلزم انتفاء المقدم“ قائلین علم غیب اس آیت کی تاویل میں کہا کرتے ہیں کہ آنحضرت کو علم غیب ذاتی نہ تھا بلکہ اللہ کی طرف سے وہبی تھا اور اس آیت میں جس علم غیب کی نفی کی گئی ہے وہ علم ذاتی ہے مطلب (آیت بقول ان کے) یہ ہے کہ مجھ (رسول اللہ) میں علم غیب ذاتی نہیں اس سے وہبی کا انکار ثابت نہیں ہوتا۔ جواب :۔ یہ ہے کہ علم ذاتی اور علم وہبی کے مرتبے میں بیشک فرق ہے یعنی علم ذاتی اصل اور وہبی فرع ہے مگر علم کے اثر (نتیجہ) میں فرق نہیں ہوتا یعنی بعد حصول علم و ہبی کے جیسا ذاتی کا عالم اَعْلَمُ کہتا ہے وہبی کا عالم بھی اَعْلَمُ (جانتا ہوں) کہہ سکتا ہے۔ یہ دونوں اس کہنے میں مسادی ہیں پس اس اصول معقول کے ماتحت قرآن مجید کو دیکھئے کہ اعلم کہہ کر علم کی نفی کی ہے یعنی فرمایا ہے۔ لو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر۔ ثابت ہوا کہ یہ تاویل آیت موصوفہ کی منشاء الہی کے خلاف ہے علاوہ اس کے استکثار خیر (بھلائی کا جمع کرنا) جیسے علم ذاتی کا نتیجہ ہے وہبی کا بھی ہے مثلا ایک شخص کسی شہر کی منڈی میں کسی خاص قسم کی تجارت میں کثیر فائدہ حاصل ہوتا دیکھے جسے علم ذاتی کہا جاتا ہے جے سخ اسے وہاں مال لے جانے میں فائدہ ہوگا جو شخص اس سے علم صحیح حاصل کرکے وہاں مال لے جائے اسے بھی ثابت ہوا کہ استکثار خیر اگر ذاتی علم پر متفرع ہے تو وہبی علم پر بھی ویسا ہی فرع ہے اس میں کوئی فرق نہیں پس عدم استکثار خیر دونوں قسموں کے عدم علم کو مستلزم ہے۔ منطقی طرز بیان کے بعد ہم قرآن مجید کے واضح الفاظ میں اس مسئلہ کا فیصلہ سناتے میں صاف ارشاد ہے۔ قل لا اقول لکم عندی خزائن اللہ و لا اعلم الغیب و لا اقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحی الی (پ ٧ ع ١١) یعنی اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں کو نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں نہ میں تم کو یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتا ہوں۔ کیسی صاف تصریح ہے کہ الٰہی الفاظ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان الہام ترجمان سے کہوایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا اس صاف تصریح کے ہوتے ہوئے کسی دوراز کار قیاس سے اس بات کا عقیدہ رکھنا قرآنی تصریح کے خلاف کس طرح ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ واقعات حدیثیہ اور اقوال فقہاء بکثرت ہیں جن سے مسئلہ علم غیب کی مکمل نفی ہوتی ہے مگر ہم بحیثیت تفسیر قرآنی تصریحات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اللہ اعلم منہ