فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا
پس (اے نبی!) آپ صبر کیجئے، صبر جمیل [٤]
(5۔14) پس تو اتنا ان کو سنا دے اور ان کی ناجا ئز بے ہودہ گوئی پر اچھی طرح خوش اخلاقی سے صبر کیا کریہ لوگ اس عذاب کو دور جانتے ہیں کیونکہ ان کی نظر سے اوجھل ہے اور ہم (اللہ) اس کو قریب دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے سامنے ہے اس عذاب کا وقوع اس روز ہوگا جس روز آسمان پگلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے یعنی اتنے بڑے بڑے اجسام ہوا میں اڑ کر سمندر کے پانی میں مل جائیں گے اور اس روز کوئی گہرا دوست بھی کسی دوست کو نہ پوچھے گا کہ تیرے منہ میں کے دانت ہیں حالانکہ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ تاہم کوئی کسی کی مدد نہ کرے گا نہ کرسکے گا عذاب اور گرفت کی سختی کا حال یہ ہوگا کہ بدکار آدمی جو عذاب میں گرفتار ہوگا وہ چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے وہ اپنے بیٹوں‘ بیوی‘ سگے بھائی‘ کنبہ برادری کو جو اسے مصیبت میں پناہ دیتی تھی اور دنیا کے سب لوگوں کو اپنے فدیے میں دے دے پھر یہ فدیہ اس کو عذاب سے چھڑا لے۔ ہرگز ایسا نہ ہوگا۔ بے شک وہ دوزخ شعلے مار رہی ہوگی اس کے جوش اور شعلہ افگنی کی یہ حالت ہوگی کہ مجرموں کے چمڑے جلا کر اتار دے گی یعنی چمڑہ جلا کر بدن ننگا کر دے گی ننگا ہونے کے بعد نیچے سے پھر نیا چمڑا نکلے گا جس نے ہدا یت قبول کرنے سے ازروئے تکبر پیٹھ اور منہ پھیرا ہوگا اور جائز ناجائز طریق سے مال جمع کیا اور نیک کام میں خرچ کرنے سے محفوظ رکھا ہوگا ایسے لوگوں کو اپنے اندر بلائے گی پس تم سننے والے ہوشیار رہو کہ کوئی کام تم ایسا نہ کرو جس سے تم جہنم کے لائق ہوجائو۔