يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ سجدہ [١٩] نہ کرسکیں گے
(42۔52) ہاں اس میں شک نہیں کہ جو لوگ پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے اور بدکاری سے بچنے والے ہیں ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمتوں کے باغ ہیں جن میں ہر قسم کے پھل پھول اور ہر قسم کا عیش و آرام ان کو حاصل ہوگا۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی زندگی میں نیکوکار رہے اچھے کام کرتے رہے اگر ان کو ہم نیک بدلہ نہ دیں تو کیا پھر فرمانبرداروں کو بے فرمانوں جیسا کردیں نہ ان کو سزا نہ ان کو جزا پھر تو دونوں برابر ہوگئے تم جو اس برابری کے قائل ہو تمہیں کیا ہوگیا تم لوگ کیسی کیسی رائیں لگاتے ہو کیا تمہارے پاس کوئی الٰہی کتاب ہے جس میں تم لوگ پڑھتے ہو کہ جو تم چاہو وہ تمہیں ملے گا چاہے تم کیسے بدعمل اور مشرک ہو کیا ہمارے ہاں تمہارے حق میں عہدوپیمان ہیں جو قیامت تک تمہارے لئے پٹہ ہیں کہ جو بھی تم اپنے حق میں فیصلہ کرو وہ تم کو بلا شک وشبہ مل جائے گا اے رسول تو ان سے پوچھ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار مدعی ہے جو بتائے کہ ان باتوں کا جواب کیا ہے مثبت ہے یا منفی کیا ان موجودہ مشرکوں کے بنائے ہوئے معبود اللہ کے شریک ہیں ؟ اگر یہ اپنے عقیدہ شرک میں سچے ہیں تو ان شریکوں کو یا ان کی تعلیم کو اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کریں آج ہوش وحواس کی حالت میں ان کو اللہ کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے تو نہیں آتے اس روز کیا کریں گے جس روز یعنی قیامت کے دن سخت گھبراہٹ ہوگی اور ان منکرین کو اللہ کے لئے سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ نہ کرسکیں گے یہی معنے حضرت ابن عباس (رض) نے کئے ہیں چنانچہ صحیح مسلم کی شرح میں مذکور ہے۔ ” فسرا بن عباس وجمھورا ھل اللغۃ وغریب الحدیث الساق ھہنا بمعنے الشدۃ ای یکشف عن شدۃ و امر مہرلی (نووی) ص ١٠٢ ج ١ “ ان کی آنکھیں خوفزدہ ہوں گی یعنی ان کی آنکھوں سے اللہ کا خوف اور دہشت معلوم ہوگی اور ان کے چہروں پر ذلت برستی ہوگی اور سجدے کی عدم طاقت اس لیے ہوگئی دنیا میں جب یہ لوگ صحیح سالم تھے اس حالت میں سجدے کی طرف بلائے جاتے تھے تو سجدہ نہ کرتے تھے تو اب قیامت کے روز کیسے کریں۔ اپنے مخالفوں کی سزا کا ذکر تو نے سن لیا پس جو لوگ اس کلام تیری الہامی تعلیم کو نہیں مانتے بلکہ جھٹلاتے ہیں ان کو ہمارے حوالے کر یعنی تو ان کی پروا نہ کر پھر دیکھیو ان کے بے خبری میں ہم انکو کہاں کہاں لے جائیں گے پہلے دنیا میں مغلوب اور ذلیل کریں گے فقروفاقہ سے تنگ کریں گے موت کے بعد عذاب برزخ میں مبتلا کریں گے بعد زاں عذاب جہنم میں ان کو ڈالیں گے اور سر دست تو ہم ان کو تھوڑی سی مہلت دے رہے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی چالوں اور بدارادوں سے بے خبر ہیں ۔ بلکہ ہمارا دائو خفیہ گرفت مضبوط ہے بھلا یہ جو تیری (اے نبی) نہیں سنتے کیا تو ان سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ مانگتا ہے جس کے دبائو میں یہ لوگ دبے جاتے ہیں۔ کچھ نہیں بلکہ تیری طرف سے تو صاف اعلان ہے کہ میں تم سے مزدوری نہیں مانگتا پھر کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے یہ لوگ مطلب کی باتیں لکھ لیتے ہیں جس میں یہ بھی مرقوم ہو کہ ان لوگوں کا رویہ بہتر ہے۔ کچھ نہیں نہ علم غیب ہے نہ کچھ اور بلکہ محض نفسانی شرارت ہے اور بس پس تو اے نبی اپنے رب کے حکم سے صبر کر اور اپنے نفس کو اللہ کے وعدہ پر مضبوط رکھ اور کسی طرح کا فکر پاس بھی نہ آنے دے۔ خبردار مچھلی والے یونس نبی کی طرح نہ ہوجیو اس کی زندگی میں خاص کر وہ وقت قابل ذکر ہے جب اس نے مچھلی کے پیٹ میں سخت اندھیرے اور تنہائی میں سخت رنج وغم کی حالت میں بامید نجات اللہ کو پکارا تھا کہ یا اللہ تو پاک ہے اور میں ظالم ہوں لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین کی طرف اشارہ ہے۔ اگر اس کے پروردگار اللہ عالم کی مہربانی سے اس کی دست گیری نہ ہوتی تو مردہ ہو کر ذلیل وخوار جنگ میں ڈالا جاتا یا مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتا۔ مگر چونکہ اس نے اپنے حق میں قصور اور اللہ کی تقدیس کا اعتراف کیا اسلئے وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر میدان میں ڈالا گیا لیکن آسمان اور زمین والوں کے نزدیک ذلیل وخوارنہواہاں مچھلی کے پیٹ کی وجہ سے بیمار ضرور تھا۔ پھر اللہ نے اس کو برگزیدہ کیا۔ اور اس کو صالحین کی جماعت میں داخل کیا یعنی خلعت رسالت دے کر اسی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا جو کہ اس کی غیبوبیت میں مومن ہوچکی تھی۔ سورۃ صافات میں حضرت یونس کے ذکر میں یوں فرمایا ہے۔ فلو لا انہ کان من المسبحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون فنبذ ناہ با العراء وھو سقیم۔ اس آیت میں اور زیر تفسیر آیت میں بظاہر اختلاف ہے کیونکہ اس آیت میں ذکر ہے کہ حضرت یونس تسبیح نہ پڑھتے تو مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتے یعنی ان کو رحمت الٰہی دست گیری نہ کرتی زیر تفسیر آیت میں ذکر ہے کہ اگر اللہ کی رحمت انکی دست گیری نہ کرتی تو جنگل میں مذموم حالت میں ڈال دیئے جاتے حالانکہ سورۃ صافات میں خود فرمایا ہے کہ اسکی تسبیح پڑھنے پر ہم نے اسکو جنگل میں ڈال دیا۔ یعنی جنگل میں ڈالنا علامت نجات بھی کہا اور اثر عذاب بھی فرمایا۔ اس اختلاف کی تطبیق اس طرح دی ہے بیشک درصورت عدم تسبیح اللہ کی رحمت دست گیر نہوتی۔ لیکن رحمت دست گیر نہ ہونے کے دو اثر بتائے ان دو میں نسبت مانعۃ الخلو ہے یعنی مچھلی کے پیٹ میں رہنے یا جنگل میں ڈالے جانے میں سے ایک ضرور ہوتا۔ دوسرے اعتراض کا جواب یہ دیا ہے کہ جنگل میں ڈالا جانا دو طرح ہے (ایک) بحالت ذلت۔ دوم بحالت علالت بحالت ذلت ڈالا جاتا بے شک علامت عتاب ہے مگر بحالت علالت عتاب نہیں بلکہ اثر نجات ہے۔ فافھم جس طرح یونس نبی کی قوم اس کی مخالف تھی یا اور انبیاء کرام کی قومیں ان سے برسر جنگ رہتی تھیں۔ تیرے زمانہ کے منکرین بھی کم نہیں ایسے شدید الغضب ہیں کہ جب تیری نصیحت سنتے ہیں تو ایسے آگ بگولہ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ قریب ہے کہ گھور گھور کر اپنی نیلی پیلی آنکھوں کے خوف سے تجھے تیرے عزم مصمم سے پھسلا دیں اور بجائے اس کے اپنے جوش کو جنون کہیں کہتے ہیں کہ تحقیق یہ رسول مجنون ہے جو سب دنیا کے خلاف تعلیم دیتا ہے کبھی کہتا ہے کہ معبود سب کا ایک ہی ہے کبھی کہتا ہے مر کر اٹھنا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ حالانکہ وہ قران جو تو تعلیم دیتا ہے تمام دنیا کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے نہ اس میں کوئی بات خلاف عقل ہے نہ مخالف نقل۔ ہاں ان کی کج طبائع کے خلاف ہے سو ایسا ہونا ہی چاہیے وہ دوا ہی کیا جو مریض کے خلاف منشا نہ ہو۔ کہ داروئے تلخ است دفع مرض لو لا کانت قریۃ امنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس لما امنوا کشفنا عنہم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا۔ اس آیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں قوم یونس کا بوجہ ایمان لے آنے کے عذاب سے بچ جانے کا ذکر ہے۔ فافہم