وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اگر آپ ان کا قدو قامت [٥] دیکھیں تو آپ کو بہت پسند آئے اور اگر ان کی بات سنیں توبس سنتے ہی رہ جائیں۔ گویا وہ دیواروں [٦] کے ساتھ لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں۔ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھتے ہیں کہ ان پر [٧] (کوئی بلا) آئی یہی لوگ دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہیے [٨]۔ انہیں اللہ غارت کرے، کہاں سے بہکائے جاتے ہیں۔
دیکھئے تو بھلا اے نبی جب تیرے پاس آتے ہیں اور تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم بوجہ ڈیل ڈول کے حیران کرتے ہیں تو سمجھتا ہے کہ یہ بڑے معزز اور شریف لوگ ہیں اس لئے جب وہ بات کرتے ہیں تو تو ان کی بات پر توجہ کر کے سنتا ہے جیسے کسی معزز اور شریف کی بات سنی جاتی ہے کیونکہ ان کی ظاہر وجاہت ایسی ہے گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھنبے ہیں جن کے ساتھ لوگ بیٹھے ہوئے تکیہ لگاتے ہیں۔ بظاہر شکل وصورت تو ایسی ہے۔ خواہ مخواہ معتبر باشد مگر اندرونی کمزوری ان میں ایسی ہے۔ کہ ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں۔ کہیں کوئی جہاد کی آواز ہو تو اپنی موت جانتے ہیں کہیں آندھی تیز چلے تو موت کی طرح ڈرتے ہیں۔ ان کی نرم نرم باتیں سن کر پھندے میں نہ آنا بلکہ دل میں یقین رکھنا کہ یہی اصل دشمن ہیں پس تو اے پیغمبر (علیہ السلام) ان دشمنوں سے بچتے رہیو ! ان کو اللہ کی مار کہاں کو بہکائے جا رہے ہیں۔ مُسَنَّدَہٌ اسم مفعول کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے کیا ہے لکڑی لگائے دیوار سے۔ ان معنے سے ان کی جسامت اور ڈیل ڈول ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دیوار سے پتلی لکڑی بھی لگائی جاتی ہے میں نے اسکو اسم مفعول کہا ہے کہ انکی جسامت اور ڈیل ڈول بھی ثابت ہو یعنی بڑے ستون جن کے ساتھ لوگ سہارا لیں جیسے حرم کعبہ یا حرم مسجد نبوی کے کھنبے موٹے موٹے ہیں ہندوستان میں انکی مثل سری نگر کشمیر کے مسجد کے ستون ہیں۔ منہ