هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
وہ اللہ ہی ہے جو پیدا [٣٩] کرنے والا ہے۔ سب کا موجد [٤٠] اور صورتیں عطا کرنے والا [٤١] ہے۔ اس کے سب نام اچھے [٤٢] ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوقات ہیں سب اسی کی تسبیح کر رہی ہیں اور وہ زبردست ہیں، حکمت والا ہے۔
اور سننا چاہو تو سنو ! وہ ہی اللہ تمہارا معبود ہے جو سب مادی چیزوں کا بنانے والا اور مادہ کے بغیر مادہ کو پیدا کرنے والا سب کی تصویر بنانے والا ہے تم دیکھتے ہو دنیا میں کوئی چیز بغیر تصویر کے نہیں یہ سب مختلف صورتیں اسی اللہ کی بنائی ہوئی ہیں مختصر یہ ہے کہ سب نیک نام جن سے صفات کمال کا ثبوت ہو اسی واحد لاشریک کے لئے ہے اس لئے آسمان وزمین کی کل چزخیں اس کے نام کی پاکی بیان کرتی ہیں اور وہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے یہ تو ہے اس کی معرفت کا قرآنی سبق عاجزانہ طریق اللہ کی معرفت کا یہ ہے۔ تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے ) یہاں دو لفظ آئے ہیں خالق اور باری اس لئے دونوں کا اثر جدا جدا بتانے کو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ خالق کا فعل مادیات سے تعلق رکھتا ہے اور باری کا تعلق مادی اور مادہ کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ سب چیزوں کا مادیات ہوں یا مادہ سب کا خالق ہے چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے اللہ خالق کل شی و ھو الواحد القہار اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے۔ وہ اکیلا سب پر غالب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کان اللہ و لم یکن معہ شیٔ (بخاری) ایک وقت اللہ تھا اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔ چنانچہ ایک شاعر نے اسلامی اور غیر اسلامی عقیدے کا اظہار ایک شعر میں یوں کہا ہے کسی موجود سے ایحاد کرنا نام رکھتا ہے : مگر لوح عدم پر نقش کرنا کام رکھتا ہے : پہلا مصرعہ غیر اسلامی (ہندوانہ) عقیدہ ہے دوسرا مصرع اسلامی عقیدہ ہے اس مضمون پر ہمارا ایک خاص سالہ ” اصول آریہ“ قابل دید ہے۔ منہ۔ (