أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے ادا کرو [١٧]۔ پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے بھی تمہیں (اس سے) معاف کردیا تو اب نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
کیا تم باوجود مخلص ہونے کے اس حکم سے ڈر گئے کہ اپنے نجویٰ (کانا پھوسی) سے پہلے صدقہ دے لو۔ تمہیں چاہیے تھا کہ تم خوشی خوشی اس حکم کی تعمیل کرتے پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا یعنی نجویٰ سے پہلے صدقہ نہیں دیا اور اللہ نے تمہارے حال پر نظر عنایت کی ہے۔ تو اب تم نماز پڑھتے رہو۔ اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور رسول کی تابعداری کرتے رہو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔ اس سے کسی کا عجز بجر مخفی نہیں۔ تم مسلمان نہیں جانتے کہ یہ منافق لوگ مجلس نبوی میں آ کر کیوں ایسے دل آزار کام کرتے ہیں۔ پہلے حکم سے کئی دنوں بعد یہ آیت اتری۔ اس آیت کی تفسیر جو اوپر کی گئی ہے عامہ مفسرین کی یہی رائے ہے اس تفسیر کے ساتھ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حکم صدقہ کا منسوخ ہوگیا۔ میرے نزدیک اس آیت کا سیاق نسخ کے لئے نہیں بلکہ اصل حکم کو مضبوط کرنے کے لئے ہے سارا دارمدار اس پر ہے کہ اذ کی جزا کیا ہے اور تفعلوا کا مفعول بہ کیا ہے میرے نزدیک ترجمہ یوں ہے کہ جب کہ تم نے باوجود ناداروں کو معافی ہونے کے بھی نجوی کیا ہی نہیں تو بس ہمیشہ کے لئے اس فعل کو چھوڑو اور نماز اور زکوٰۃ وغیرہ فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہوجائو (اللہ اعلم۔ منہ)