مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے، وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب [٣٨] میں لکھی ہوئی ہے (اور) یہ بات بلاشبہ اللہ کے لئے آسان [٣٩] کام ہے
(22۔24) بعض لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ دنیا میں تکلیفات آتی ہیں تو نیک وبد دونوں کو آتی ہیں نہ بد ان سے بچتے ہیں نہ نیک چھوٹتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو بھی مصیبت آتی ہے زمین پر ہوجیسے زراعت یا پھلوں کا نقصان یا خود تمہارے نفسوں پر ہوجیسی بیماریاں وغیرہ یہ سب کچھ ہماری تقدیری نوشت میں اس کے پیدا کرنے سے پہلے کی مکتوب ہے۔ یہ خیال نہ کرو کہ اتنے اتنے واقعات اتنی مدت پہلے کس طرح لکھے گئے۔ سنو ! اس میں شک نہیں کہ یہ کام اللہ تعالیٰ پر آسان ہے کیونکہ اس کا علم کسبی یا وہبی نہیں بلکہ ذاتی اور ازلی ابدی ہے مگر تم کو اس لئے یہ بتایا گیا ہے کہ تم لوگ کسی ضائع شدہ چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور جو تم کو اللہ نے دی ہے اس پر اترائو نہیں بلکہ اللہ کی تقدیر جان کر ضائع پر صبر کرو۔ اور حاصل شدہ پر شکر۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کے ہاں متکبر شمار ہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ متکبروں شیخی بازوں سے محبت نہیں کرتا جو مال کے گھمنڈ میں بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کا حکم کرتے ہیں۔ یعنی نہ اپنی ذات سے فیاض ہیں نہ دوسرے کو فیاضی کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ موقع بموقع یہی کہتے ہیں کہ میاں ان کنگلوں کا کیا ہے۔ یہ تو اسی طرح مانگا ہی کرتے ہیں ہم لوگ اگر ان کے کہنے میں آجائیں تو کل ہی ان جیسے ہوجائیں ایسی ایسی باتیں کر کے اللہ کے حکم سخاوت سے منہ پھیرتے ہیں۔ اور نہیں سمجھتے کہ جو کوئی بھی اللہ کے احکام سے منہ پھیرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اللہ اپنی ذات میں بے پرواہ تعریف کے لائق ہے۔ کسی شخص کی روگردانی اس کو مضر نہیں۔ نہ اس کا کوئی کام رکتا ہے نہ کسی کا انکار کرنا اس میں نقص پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بذاتہ جامع اور اوصاف حمیدہ ہے