فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ جب جان ہنسلی کو پہنچ جاتی ہے
(83۔96) کیا تمہیں اللہ پر بھی ایمان نہیں۔ بھلا جب تمہارے متعلقین کی مرتے وقت روح گلے میں آپہنچتی ہے اور تم سب اس وقت اس مرنے والے کا حال دیکھا کرتے ہو اور ہم خود اس مرنے والے کے پاس تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم لوگ ہم کو نہیں دیکھتے۔ پھر اگر تم لوگ کسی مالک کے دبیل اور ماتحت نہیں ہو۔ تو اس پیارے قریبی کی روح کو واپس کیوں نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے خیال اور دعوے میں سچے ہو کہ ہم کسی کے دبیل نہیں ہرگز واپس نہیں کرسکتے۔ کیونکہ تم بلکہ تمام دنیا اسی اللہ کی محکوم اور مقہور ہے وہی تم کو جزا سزا دے گا مر کر تم سب لوگ اسی کے حضور حاضر ہوتے ہو۔ پھر بعد موت اگر وہ مردہ اللہ کے مقربوں سے ہوتا ہے تو اس کے لئے عیش و آرام اور نعمتوں کے بہشت ہیں بس مزے سے رہے اور عیش کرے مگر مقربان اللہ کون ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو ہر نیک کام میں بڑھنے والے ہیں وہ مقرب اللہ ہیں۔ اور اگر وہ مردہ دائیں ہاتھ والوں میں سے ہے یعنی جو پہلے لوگوں سے ذرہ نرم چال ہیں تو ان کی طرف سے بھی تجھ کو سلام یعنی تسلی ہو۔ آج کل کے دستور مطابق یوں سمجھو کہ مقرب لوگ ریل کے فسٹ کلاس (پہلے درجے) میں ہیں اور اصحاب الیمین سیکنڈ کلاس (دوسرے) میں۔ بس اتنا ہی ان میں فرق ہے ورنہ نعماء جنت میں دونوں فریق مزے سے گذاریں گے۔ جیسے فسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس والے ایک ہی ٹرین میں سفر کرتے ہیں ہاں اگر وہ مردہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہوگا۔ تو بس سخت کھولتے پانی سے اس کی مہمانی ہوگی۔ جو اس کو سخت پیاس کے وقت ملے گا اور وہ اس کو پی نہ سکے گا مگر پینا پڑے گا اور جہنم میں داخلہ ہوگا جہاں جانا نہ چاہے گا مگر بادل ناخواستہ جانا پڑے گا۔ یہ ہے ان تین گروہوں کا حال چال بعد موت جن میں انسان تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بے شک یہ وقوعہ قطعا صحیح ہے ایسا ہی ہو کر رہے گا۔ پس تم اے لوگو ! جو ان مقامات عالیہ اور نعماء جنت کی خواہش اور تمنا کرتے ہو اپنے عظمت اور جلالت والے پروردگار کے نام کی تسبیح پڑھا کرو۔ یعنی خالی وقت ضائع نہ کیا کرو۔ بلکہ سبحان اللہ العظیم پڑھا کرو۔ اس پر مداومت کرنے سے تم ان مراتب کو پالو گے۔ انشاء اللہ اللھم وفقنا۔