سورة النسآء - آیت 3

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف [٥] نہ کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں، دو، دو، تین، تین، چار، چار تک نکاح کرلو۔ [٦] لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ یا پھر وہ کنیزیں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔[٦۔ ١] بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات قرین صواب ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اور یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف کرو اگر تم کو ان یتیموں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو یعنی اگر تم اپنی طبیعت پر قابو نہ سمجھو تو ان سے نکاح نہ کیا کرو بلکہ اور عورتوں سے نکاح کیا کرو جو تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں خواہ ایک سے کرو خواہ دو سے خواہ تین سے خواہ چار سے پھر اس میں بھی ایک شرط ہے کہ اگر تم زیادہ عورتیں کرنے میں بے انصافی سے ڈرو تو بس ایک ہی منکوحہ رکھو یا در صورت نہ پانے منکوحہ کے لونڈی پر کفائت کرو یہ بے انصافی سے بچنے کا بہت اچھا ذریعہ ہے بس اسی پر صابر شاکر رہو (مَثْنٰی وَثُلٰثَ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اٹل قانون کے لحاظ سے مردوں کو حسب ضرورت متعدد ازواج کو نکاح میں لانے کی اجازت دی ہے اس مسئلہ (تعداد ازواج) کے متعلق تو مخالفین نے جس قدر ورق سیاہ کئے ہیں ان کا کچھ حساب نہیں کسی نے اس مسئلہ کی طفیل اللہ تعالیٰ کے پاک مذہب اسلام کو ظالم بتایا کسی نے آزادی بنی آدم کے مخالف کا خطاب عطا کیا کسی نے اپنے لکچروں میں کہا کہ ” اسلام سے بجز تعداد ازواج کے کچھ بھی روشنی دنیا میں نہیں آئی۔ غرض کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ لیکن یہ مسئلہ اپنی بنا قوی (قانون فطرت) کی وجہ سے ایسا مضبوط ہے کہ ایسے ویسے ہوا کے جھونکوں سے تو کیا بڑے بڑے زلزلوں سے بھی متاثر نہیں ہونے کا اس مسئلہ کی تصحیح اور مخالفین کے جوابات میں علماء اسلام نے بہت کچھ لکھا اور لکھتے ہیں اور لکھیں گے لیکن ہمارے خیال میں جب تک اس کی بنا اور قانون فطرت جس پر یہ مبنی ہے بیان نہ کیا جاوے کسی دوسرے جواب کا ذکر موزون نہیں اس لئے ہم اس قانون فطرت کو پہلے بیان کریں گے جس پر اس مسئلہ کی بنا ہے۔ نظام عالم میں دنیا کی مختلف چیزوں کی طرف نظر کرنے سے اتنا پتہ تو چلتا ہے کہ خالق کائنات نے ان سب چیزوں میں سے بعض کو مستعمل (کام میں لانے والی برتنے والی) اور بعض کو مستعملہ (قابل استعمال) بنایا ہے۔ بے جان چیزوں میں تو کچھ خفا نہیں کہ کپڑا برتن وغیرہ سب مستعملہ ہیں جانداروں میں بھی سوائے انسان باقی تمام حیوانات انسان کے مستعملہ ہیں مثلاً گھوڑا۔ اونٹ۔ ہاتھی۔ گائے۔ بیل۔ بھینس وغیرہ وغیرہ سب کے سب انسان کے لئے مستعملہ ہیں اور انسان ان کا مستعمل (برتنے والا ہے) اسی طرح انسان کی دونوں قسموں (مرد عورت) کو بھی دییں ع کہ ان میں بھی یہ دستور جاری ہے یا کہ دونوں مساوی ہیں؟ بعد غور اس نتیجہ پر پہونچنا کچھ مشکل نہیں کہ بیشک مرد مستعمل (برتنے والا) عورت مستعملہ ہے اس دعوٰی پر ہمارے پاس ہر طرح کے دلائل (فطری۔ عرفی۔ مذہبی) موجود ہیں۔ دلائل فطریہ (١) غرض تزوج میں مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے کیونکہ جب مرد جماع کرنا نہ چاہے عورت اس سے جبراً نہیں کرا سکتی ہاں مرد جبراً چاہے تو کرسکتا ہے جس سے صاف ثابت ہے کے مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے۔ (٢) آلہ استعمال مرد کو عطا ہوا ہے تو پھر مرد کے مستعمل ہونے میں کیا شک ہے؟ (٣) مرد عورت کی ظاہری شکل اور ہئیت بھی اس نسبت کو بیان کرتی ہے مرد کے چہرہ پر وقت بلوغت عموماً بالوں کا نکلنا اور عورت کا منہ ہمیشہ تک صاف رہنا جو اس کے مرغوب الطبع ہونے کا ایک قوی ذریعہ ہے اس نسبت کی قوی دلیل ہے۔ (٤) اولاد کے حق میں ان کا مشقت اور تکلیف شافہ اٹھانا حالانکہ وہ نطفہ یقینا مرد کا ہے اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ عورت مثل ایک مزدور کے مستعملہ ہے اور مرد اس کا مستعمل۔ (٥) مرد کا عموماً تنومند اور طاقتور ہونا یہاں تک کہ تمام طاقت کے کاموں کا (مثل جنگ ! وغیرہ) سب کا متکفل ہونا اور عورت کا اس سے بالکل سبکدوش رہنا اس امر کی دلیل یا قرینہ ہے کہ مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے۔ داڑھی منڈانے سے چہروں کی صفائی رکھنے والے ان پر ذرا غائر نظر سے غور کریں۔ اس روشنی کے زمانہ میں بھی اس مسئلہ کے مخالفوں سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی عورتوں کو اس قابل بنا دیں کہ وہ بھی مثل مردوں کے میدان جنگ میں آسکیں افسوس ہے یورپ کے پادریوں پر عورتوں کو مساوی حقوق دلانے کے خواہش مند ہیں وہ بھی اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ عورتوں کو ملٹری (جنگی محکمہ) میں داخل کرا دیں کیسے قانون قدرت سے مقابلہ نہ ہوا خالہ جی کا حلوا ہوا۔ منہ دلائل عرفیہ یعنی وہ دلائل جن پر کل بنی آدم بلا لحاظ مذہب عمل کرتے ہیں (١) عموماً شادی کر کے خاوند کا عورت کو اپنے گھر میں لے جانا اور وقت نکاح کے کچھ دینا اور گھر میں لے جا کر اس پر مناسب حکمرانی کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ عموماً بنی آدم عورت کو مستعملہ جانتے ہیں۔ (٢) عموماً بازاروں میں عورتوں کا زنا کے لئے مزین ہو کر بیٹھنا اور مردوں سے عوض لے کر ان سے زنا کرانا اور مردوں کا عوض دے کر ان سے بدفعلی کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت بھی مثل دے کر اشیا مستعملہ کے ہے۔ (٣) عموماً ہر قوم کا عورتوں کو زیب و زینت سے مزین رکھنا اور اس زینت کو معیوب نہ سمجھنا بلکہ عورتوں کا بھی طبعی طور سے اس طرف مائل رہنا اس امر کا ثبوت ہے کہ کل قومیں عورت کو مستعملہ جانتی ہیں۔ اس امر کا زیادہ ثبوت لینا ہو تو ہمارے ملک کے ہندئوں کی چال دیکھئے کہ کس طرح سے عورتوں کو زینت لگا کر بازاروں میں گشت کرایا کرتے ہیں اور کسی طرح سے معیوب نہیں جانتے بلکہ جنٹلمین عیسائیوں کی عورتیں بھی مردوں کی نسبت سبک کمر اور دیگر لوازمات ضروریہ سے مزین رہتی ہیں۔ ١٢ ( ) ٤) عورت کا حمل کی وجہ سے تکلیف اٹھا کر بھی ہر مذہب میں بچہ کا باپ کی نسل سے ہونا بھی اس امر کا قرینہ بلکہ دلیل ہے کہ عورت مستعملہ ہے۔) یہ دلیل اور دلائل فطریہ کی چوتھی دلیل آپس میں متغائر ہیں کیونکہ اس میں محض عورت کے حمل کا لحاظ ہے اور اس میں بچہ کی نسبت باپ کی طرف ہونے کا ذکر ہے۔ ١٢ منہ ( دلائل مذہبی یعنی وہ دستور العمل جو ہر مذہب والے بتعلیم مذہب مانتے ہیں سب سے پہلے اس امر میں ہم اپنے قدیمی مہربان عیسائیوں کی شہادت لیتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ میں بحیثیت مذہبی کیا فتوٰی دیتے ہیں عورت مستعملہ ہے یا نہیں عیسائیوں کا دستور العمل جس کا نام دعاء عمیم کی کتاب ہے دیکھنے سے ہماری تائید ہوتی ہے کہ عورت کو عیسائی بھی مستعملہ مانتے ہیں چنانچہ کتاب مذکور میں نکاح کی ترتیب کے بیان میں لکھا ہے۔ خادم الدین (پادری) مرد سے یہ کہے۔ فلانے (مثلاً زید) کیا تو اس عورت کو اپنی بیاہتا جورو ہونی قبول کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگانی گزارے گا۔ اور تو اس سے محبت رکھے گا اس کو تسلی دے گا اس کی عزت کرے گا اور بماکری و تندرستی میں اس کی خبر لے گا اور سب دوسروں کو چھوڑ کر دونوں کی زندگی بھر فقط اسی کے ساتھ رہے گا؟ مرد جواب دے۔ ہاں البتہ تب تسیس عورت سے کہے فلانی (مثلاً ہندہ) کیا تو اس مرد کو اپنا بیاہتا شوہر ہونا قبول کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگانی گذارے گی اور تو اس کے حکم میں رہے گی اور اس کی خدمت کرے گی اور اس سے محبت رکھے گی اس کا ادب کرے گی اور بیماری و تندرستی میں اس کی خبر لے گی اور سب دوسروں کو چھوڑ کر دونوں کی زندگانی بھر اسی کے ساتھ رہے گا عورت جواب دے ہاں البتہ۔ دعائے عمیم ص ٢٦٢۔ اس سے زیادہ تاکید دیکھنی ہو تو افسیوں ٨‘ ٢٢ ملاخطہ ہو۔ عبارت مذکورہ بالا ہمارے دعویٰ کی صریح شہادت ہے کہ عورت مستعملہ ہے اسی لئے تو اس کے ماتحت اور تابع رہنے کی پادری صاحب بھی وصیت کرتے ہیں جو مرد کو نہیں کرتے (پادری صاحب یہاں پر مساوی حقوق دلانا بھول گئے) اس کے بعد ہم اپنے پڑوسی ہندئووں کا رواج دیکھتے ہیں۔ رسالہ کھتری ہتکاری آگرہ میں یوں لکھا ہے۔ بچپن میں والدین کی اور بعد شادی کے شوہر کی مرضی مطابق چلنا ان (عورتوں) کا فرض قرار دیا ہے۔ اسی فرض کا انتقال شادی کنیاں (کنواری) کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بعد ادائے اس رسم کے اسی معنی پر وہ اپنے سوامی (خاوند) کے اقتدار میں آجاتی ہے۔ والدین کو اس بات کا حق حاصل نہیں رہتا کہ خلاف اس کے سوامی کی مرضی کے اپنی مرضی کو مقدم مان کر اس سے اس پر کاربند ہونے کے خواستگار ہوسکیں۔ باب ماہ مئی ١٨٩٦؁ء ایسے یہ دوسری شہادت ہندو دھرم کی منوجی مہاراج کے دھر شاستر سے درج ذیل ہے۔ عورت نابالغ ہو یا جوان یا بڈھی گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے۔ عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے۔ اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں۔ اور بعد وفات شوہر کے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے۔ باب ٥۔ فقرات ١٤٧۔ ١٤٨ آریوں نے تو عورت کو استعمال میں یہاں تک بڑھایا ہے کہ اگر کسی مرد کے نطفہ میں ضعف ہو جس سے اولاد نہ ہوتی ہو تو وہ خاوند عورت کو کسی دوسرے سے بذریعہ نیوگ ہم صحبت کرا کر اپنے لئے اولاد لے سکتا ہے) اس مسئلہ کے متعلق کچھ لطائف دیکھنے ہوں تو مرزا صاحب قادیانی ضلع گورداسپور کا رسالہ آریہ دھرم“ ملاحظہ کرو ہمیں ان لطائف کے بیان کا موقع نہیں۔ ١٢ ( اس مسئلہ کو سوامی دیانند بانئے فرقہ آریہ سماج نے اپنے متعدد رسالوں ستیارتھ پرکاش وغیرہ میں بیان کیا ہے غرض دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو ہمارے اس دعویٰ (عورت کے مستعملہ ہونے) کے خلاف کہنے کی جرأت کرسکے اگر کرے گا تو قانون قدرت کی مضبوط بنا اور زمانہ کا رواج اور تمام اہل مذاہب کا برتائو اس کی تکذیب کریں گے۔ پس جب کہ عورت مستعملہ ! ہے تو کیا وجہ ہے کہ جب ضرورت مثل دیگر اشیاء مستعملہ (کرتہ کوٹ اچکن وغیرہ) کے اس کا تعدد جائز نہ ہو۔ اسی مضبوط بنا کی طرف اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف نے اشارہ کر کے مخالفوں کے تمام سوالوں کا دندان شکن جواب دیا ہے جہاں ارشاد ہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْ یعنی مردود کی حکومت عورتوں پر دو وجہ سے ہے ایک تو قدرتی (جس کی شہادت دلائل فطریہ دے رہے ہیں) دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد اپنی کمائی میں سے عورتوں کو خرچ وغیرہ دیتے ہیں۔ اس تقریر پر یہ شبہ کرنا جو عموماً اس مسئلہ کے مخالفین کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ ” مرد عورت لذات نفسانی میں برابر ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مرد کو متعدد نکاحوں کا حکم ہوا اور عورت کو ایک وقت میں صرف ایک پر قناعت کا ارشاد“ گویا قانون قدرت کا مقابلہ ہے جو کسی طرح سے چل نہیں سکتا۔ جب کہ قدرت نے جیسا کہ ابھی ہم ثابت کر آئے ہیں عورت کو مستعملہ بنایا ہے اور مرد کو مستعمل تو ان کو مساوی حقوق دینا یا دینے کا خیال کرنا گویا پانی کو اوپر کی طرف کھینچنا اور ہوا کو نیچے کی طرف لانا ہے ‘ ) پردہ داری کی جو اسلام میں تاکید ہے اسی بنا پر ہے کہ عورت مستعملہ ہے جس کے برہنہ رہنے سے بگڑنے کا اندیشہ ہے اس لئے مثل باقی اشیاء مستورہ کے اس کا محفوظ رہنا ہی مناسب ہے تفصیل اپنے موقعہ پر۔ ١٢ منہ ( علاوہ اس کے ہم بداہتہً دیکھتے ہیں کہ عورت مرد کی نسبت سے عموماً مواقع قدرتی (مثل حیض و نفاس وغیرہ) کی وجہ سے بہت ہی کمزور ہوتی ہے اور بسا اوقات اس میں کئی ایک امور مثل حمل وغیرہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جماع کو سخت مکروہ جانتی ہیں اس امر کا تجربہ ان لوگوں کو ہوتا ہوگا۔ جو حمل کے وقت اس امر پر غور کرتے ہوں گے یا علم طب سے ان کو کچھ واقفیت ہوگی۔ ہم اس فرق کی وجہ دوسرے طور سے بھی بضمن تقریر ثانی بیان کریں گے اور اس شبہ کا جواب بھی اسی تقریر میں دیں گے کہ اگر عورت مستعملہ ہے تو مثل دیگر اشیاء مستعملہ کے دو مالکوں میں بھی مشترک ہونے میں کیا حرج ہے۔ تقریر ثانی :۔ تقریر اوّل تو بلحاظ قانون فطرت کے تھی اب ہم اس مسئلہ کے فوائد پر لحاظ کرتے ہیں اور اس کے خلاف کے نقائص بتلاتے ہیں تاکہ ” سالے کہ نکوست از بہارش پیداست“ کے مطابق اس مسئلہ کا بھی کمال ظاہر ہو۔ سب سے بڑا فائدہ اس مسئلہ کا کثرت بنی آدم ہے اس امر (کثرت بنی آدم) کے ضروری اور اہم ہونے میں کس کو کلام ہے ذیل میں ہم ایک شہادت نقلی پیش کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ کثرت بنی آدم ایک ایسا اہم مسئلہ ہے کہ اس کی فکر میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام یورپ اور ایشیا وغیرہ ممالک بھی اس کو اہم سمجھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ذرائع نکالے جاتے ہیں مگر کیا مجال کہ کوئی ذریعہ اسلام کے بتلائے ہوئے ذریعہ کا مقابلہ کرسکے۔ پچھلے دنوں علی گڑھ گزٹ میں ایک مضمون کثرت بنی آدم کے متعلق نکلا تھا جو ہمارے دعویٰ کی شہادت کامل ہے جو یہ ہے۔ تکثر نفوس یعنی ترقی تعداد بنی آدم ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ یورپ کے ہر ایک گوشہ میں قابل غور و فکر قرارد دیا گیا ہے۔ فرانس کے ملک میں اس آخری زمانہ کے اندر انسانی تعداد میں ترقی نہ ہونے کے سبب سے وہاں کے منتظم اور علماء سیاست (پولٹیشن) کے اندر بہت اندیشہ پیدا ہوا اور جو کچھ تدابیر اس بارے میں کی جاسکتی ہیں ان کے اجرا میں گورنمنٹ فرانس برابر آگے کو قدم بڑھا رہی ہے۔ جرمنی میں اولاد کی بیشی میں ترقی دینے کے واسطے یہ تدبیر اختیار کی گئی ہے کہ جو اشخاص تین لڑکوں کے والدین ہوجائیں ان کی اعانت گورنمنٹ کے خزانہ سے کی جاتی ہے۔ اسقاط جنین (بچوں کے گرنے) کے سبب سے جو نقصان ترقی بنی آدم کے واسطے ہوتا ہے اس کے انسداد کرنے کے واسطے بعض ملکوں میں طرح طرح کی تدابیر کی گئی ہیں اور جہاں تک ممکن ہوسکا ہے اس کی روک کی گئی ہے خواہ اسقاط جنین کسی طرح سے ہو واضعان قوانین کی طرف سے اس کے جرم قرار دیئے جانے اور اس کے ارتکاب کرنے والے کے لئے سنگین سزائیں مقرر کئے جانے سے غرض صرف یہی ہے کہ ملک کی آبادی میں ترقی ہو۔ “ چونکہ تکثر نفوس کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے اور ہر ایک سلطنت اور گورنمنٹ نے اس کو نہایت ضروری اور اہم مسئلہ قرار دیا ہے اس وجہ سے وہ ملک اور قومیں جن میں توالدو تناسل زیادہ ہوتا ہے دیگر اقوام کی نظر تجسس کو اپنی طرف زیادہ مائل کرتی ہیں۔ “ مختصر علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گڑٹ ١٧ اکتوبر ١٨٩٦؁ء مضمون بالا سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت ملتا ہے کہ کثرت بنی آدم نہایت ضرور مسئلہ ہے اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ اہم مسئلہ تعدد ازواج کی صورت میں آسانی سے طے ہوسکتا ہے یا وحدت کی حالت میں جس میں مرد کی تین برس مفت ضائع جائیں مثلاً آج اگر عورت کو حمل ہوا تو اس کے جننے کے وقت تک مرد کا اس کے ساتھ جماع کرنا اس مسئلہ (کثرت اولاد) کے لحاظ سے بالکل بے فائدہ ہے کیونکہ رحم کا منہ بند ہوچکا ہے اب اس میں نہ نطفہ جاسکتا ہے جاتے تو فائدہ نہیں بعد جننے کے کچھ مدت تو عورت میں خواہ مخواہ علاوہ ضعف کے طبعی کراہت بوجہ غلاظت آلود ہونے کے رہتی ہے نیز اس وقت میں جماع کرنے سے بچہ کو ضرر ہوتا ہے اس ضرر کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جن کو ایسے وقت میں جماع کرنے کا اتفاق ہوا ہو یا طبی قاعدہ سے واقف ہیں کیونکہ مرد کی حرکت سے عورت میں ضرور ایک قسم کی حرارت پیدا ہوتی ہے جس سے اس کے دودھ میں گرمی بڑھ کر بچہ کو ضرر ہوتا ہے اور اگر اس وقت (شیر خواری) میں حمل ثانی بھی ہوجائے تو اور مصیبت کیونکہ حمل کے ہوتے ہی دودھ بگڑ جاتا ہے ایسے وقت کا دودھ بچے کے حق میں ہر طرح سے مضر ہے اور دودھ کی مدت دو ڈیڑھ برس سے تو کیا ہی کم ہوگی۔ پس نئی حمل کے ملانے سے پونے تین برس کا مل یا کم سے کم سوا دو برس کا جماع اس مسئلہ کے لحاظ سے بالکل بے فائدہ ہے۔ ) یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں دودھ کی حالت میں جماع کرنے پر کسی قدر ناراضگی بھی آئی ہے گو حرام نہیں فرمایا۔ ١٢ منہ ( اگر یہ سوال ہو کہ دودھ پلانے کو اور عورت رکھی جاوے تو اس صورت میں نقصان کا اندیشہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ علاوہ اس کے کہ ہر ایک شخص کی مقدرت اور وسعت نہیں کہ وہ ہر ایک بچہ کے لئے ایک ایک دایہ بھی رکھ سکے۔ دایہ رکھنا بھی خلاف قانون فطرت ہے‘ کیونکہ قانون فطرت نے دودھ پلانے کے لئے ماں کو بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ بعد ولادت بلا کسی دوا اور تدبیر کے ماں کو دودھ آجاتا ہے اسی احسان کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے۔ اَلَمْ ! نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ وَھَدَیْنَاہ النَجْدَیْنِ کیا ہم (اللہ) نے انسان کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے۔ اور اس کو دو گھاٹیوں (ماں کے پستانوں) کی طرف راہ نمائی نہیں کی؟ (منہ) ( اور بعد چھوڑنے بچہ کے خود ہی بند ہوجاتا ہے اور اگر دودھ کے لئے دایہ بھی رکھی جائے تو بھی حمل کے نو مہینے اور بعد ولادت مدت خون کا نقصان تو کسی طرح سے پورا نہیں ہوسکتا پس اسی بھید سے اسلام نے تعداد ازواج کو جائز رکھا ہے جو بالکل قدرتی قانون کے مطابق ہے۔ اس صورت میں اسلام کا اگر کچھ قصور ہے تو یہ ہے کہ اس نے اس تعداد کو بلا تحدید نہیں چھوڑا بلکہ محدود کردیا اور ساتھ اس کے ایسا اختیار نہیں دیا کہ جو شخص چاہے کرسکے اور جس طرح چاہے معاملہ کرے بلکہ اس کو بھی بہت سی مناسب قیود سے مقید کیا جس کا کسی قدر ذکر ہم کریں گے۔ پس اس تقریر سے ان دونوں شبہوں کا جواب آگیا جن کے جواب دینے کا ہم نے اوّل وعدہ کیا تھا کیونکہ عورت کو اگر متعدد خاوندوں کی اجازت ہو تو اس مسئلہ (کثرت بنی آدم) کے لحاظ سے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک زمین میں جس میں تخم وغیرہ ایک کسان نے ڈالا ہو۔ دوسرے کو اس میں تخم ڈالنے کی اجازت دی جائے جسے کون نہیں جانتا کہ بیہودہ پن ہے اسی طرح اگرچہ عورت مستعملہ ہے اور مرد مستعمل ہے لیکن عورت کے استعمال سے جن نتائج کی بلحاظ اس مسئلہ (کثرت بنی آدم بلکہ توالدو تناسل) کے امیر ہے وہ اس کے اشتراک کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتے علاوہ اس کے اس صورت میں اولاد مشتبہ رہ کر کس کے نام سے کھلاوے گی مثلاً ایک مسماۃ ہندہکے چار خاوند۔ زید۔ عمر۔ بکر۔ خالد ہیں۔ اب ہندہ کے حمل کا کون دعویدار اور مربی ہوگا۔ جب کہ سب کے حقوق مساوی ہیں اگر سب نے اس کی پرورش کا ذمہ لے بھی لیا اور اشتراک سے کام چلا بھی لیا تو نسبت کا کیا انتظام آخر نسبت اولاد کی تو ایک ہی باپ کی طرف ہوگی جو صورت مذکورہ میں محال ہے کیونکہ ترجیح بال مرحج لازم آتی ہے پس ایک عورت کے متعدد نکاح کرنے کی صورت میں یہ خرابیاں ہیں۔ جن کی وجہ سے اسلام نے عورت کو اجازت نہیں دی بلکہ مرد کو دی جو سراسر قانون فطرت کے موافق ہے ھٰذا مما تفردت بہ بالھام اللہ تعالیٰ لعلک لاتجد مثل ھٰذا فی غیر ھٰذا التعلین۔ اب ہم ان ہدایات کا کسی قدر مختصر سا ذکر کرتے ہیں جو اسلام نے تعدد ازواج کے متعلق فرمائی ہیں عام طور پر حسن سلوک کی ہدایت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ عاشروھن بالمعروف (نسائ) عورتوں سے نیک سلوک کیا کرو۔ ایک جگہ فرمایا۔ {وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنْ فَعِظُوْھُنَّ وَاْھُجُرْوُھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنُکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا } (نسائ) جن عورتوں سے تم مخالفت اور سرکشی پائو تو پہلے ان کو وعظ و نصیحت کرو پھر بھی نہ مانیں تو ان کو بستروں سے الگ کر دو اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو ان کو خفیف سا مارو پس اگر اتنے سے تمہاری تابعدار ہوجائیں تو ان کی تکلیف کی راہ نہ نکالو۔ خاص اسی مسئلہ (تعداد ازواج) کے متعلق صاف لفظوں میں فرمایا ہے۔ فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّتَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ مگر تمہیں بے انصافی کا خوف ہو تو ایک ہی پر گذارہ کرو یا صرف لونڈی باندیوں سے جو تمہاری بیویوں کی طرح ہیں تباہ کرتے رہو۔ “ اب ہم ان ہدایات کا کسی قدر مختصر سا ذکر کرتے ہیں جو اسلام نے تعدد ازواج کے متعلق فرمائی ہیں عام طور پر حسن سلوک کی ہدایت اس سے اسلام تمام بنی آدم کو جن مساوی نظر سے دیکھتا ہے دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ہوگا۔ میراث کے بارے میں بیٹا بیٹی دونوں کو حصہ دلاتا ہے۔ مرد کو عورت کا وارث بناتا ہے تو عورت کو بھی مرد کے ترکہ سے حصہ مقرر دلاتا ہے عورت کے مال سے مرد کو بالکل بے تعلق بتلاتا ہے حتی کہ زرمہر میں سے بھی مرد کو اختیار نہیں کہ بدون اجازت عورت کے کچھ دبالے چنانچہ ارشاد ہے۔ {وَاٰتُوْ النِّسَآئَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیِئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْئًا مَّرِیأً} (النسائ) عورتوں کو ان کے مہر خوشی بخوشی بغیر کسی دل آزاری کے دیا کرو پھر اگر وہ اپنی مرضی سے اس میں سے کچھ چھوڑیں تو اسے بخوشی خاطر لے لو۔ ذرہ اس کے مقابل انگلستان جیسے مہذب ملک کا حال بھی سن لو کہ وہاں عورتوں کی بجز تھیٹر ہال کے تماشہ دیکھنے کی کچھ اور وقعت بھی ہے۔ ) یورپ کے ملکوں کو لوگ مہذب کہا کرتے ہیں اسی بنا پر ہم نے بھی یہ لفظ (مہذب) لکھا ہے ورنہ حقیقت میں یورپ جیسا کوئی ملک مخرب اخلاق دنیا بھر میں نہ ہوں گا جہاں کروڑ روپیہ کی شراب کے جہاں کروڑ ہا حرامی بچے پیدا ہوں جہاں مرد و عورت تالابوں میں ننگے نہائیں جہاں سربازار حسین عورتیں بوسہ نیلام کرائیں وغیرہ وغیرہ وہ ملک مہذب ہوسکتا ہے؟ تعوذ باللہ منہ ( ” عورتوں کے حقوق کے باب میں قدم رسوم سے قطع نظر کر کے صرف انگلستان کے قانون کو دیکھا جاوے کہ ان لوگوں نے باایں ہمہ اصلاح وہ تہذیب عورتوں کے حق میں کیسے جور اور حیف کو جائز رکھا ہے اور مردوں کی خود رائی کے ان کو تابع کردیا ہے۔ نکاح کے بعد بہت سے احکام میں عورت کی ذات ہی قائم ہی نہیں رہتی وہ اپنے نام سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکتی اور اس کی ذاتی جائداد جو قبل نکاح سے حاصل کی ہو وہ بھی شوہر کی ملک میں آجاتی ہے اور اسے اختیار ہوتا ہے جیسے چاہے اسے صرف کرے۔ عورت کو اتنا بھی حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے نام سے یا اپنی ذات خاص کے لئے ضروریات خرید کرے یا منگوا بھیجے گو مرد پر نان و نفقہ عورت کا واجب ہے مگر انگلستان میں اس کی تعمیل کا کوئی صاف ذریعہ نہیں ہے اور نہ عورت کو روٹی کپڑے کی نالش کرسکنے کا حق ہے مگر کچھ ضمنی صورتیں نکالی گئی ہیں اور نیز بہت سے مدارج بدسلوکی اور اذیت کے ایسے ہیں جن کا کچھ چارہ نہیں۔ نہ عورت کی کوئی فریاد سنتا ہے نہ عدالت کچھ کرسکتی ہے۔ گو عورت اپنے شوہر سے مفارقت کر کے عرصہ تک الگ رہے مگر چونکہ جائداد وہ حاصل کرے گی وہ شوہر کی ہوگی۔ اگر عورت پیشتر کچھ بندوبست نہ کرائے تو عورت کا وہ مال و اسباب جو اس نے ایام مفارقت میں حاصل کیا ہے ــ۔ اس کے شوہر کے قرض خواہ اس سے لے سکتے ہیں مرد کو اپنی کل جائداد کا اختیار حاصل ہے چاہے وہ اپنی حین کو حیات میں غیروں کو دے جائے عورت کو کچھ نہیں مل سکتا۔ جب اسے دستور جاری ہوں اور مرد تنک مزاج اور موم کی ناک ہو تو عورت کی بڑی حق تلفی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بعض باتوں میں عورتوں کی رعائت اور مردوں کی حق تلفی بیع ہے۔ جرائم سنگین میں تو نہیں مگر اور جرموں میں اگر عورت اور مرد دونوں اس کے مرتکب ہوئے ہوں تو عورت سزا یاب نہ ہوگی۔ احسان (خاوند عادی) کی وجہ سے عورت کو یہاں تک آزادی ہے کہ زنا کی سزا سے بھی محفوظ ہے۔ اور اگر عورت اپنے شوہر کا کیسا ہی مال و متاع لے جاوے اس کی پرسش نہ ہوگی اگر کوئی غیر شخص صرف مال کے لالچ سے (بغیر زنا) عورت کے ساتھ اس کے شوہر کا مال نکلوا لے جاوے تو اکثر صورتوں میں دونوں میں سے ایک بھی سزا نہ پائے۔ غرض یہ سب افراط و تفریط کے بے موقع قانون ہیں جن کی مہذب قومیں پابند ہیں گو اب اس کے ابطال کے لئے بہت کچھ زور مارتے ہیں اور اس کی شناعت اور قباحت رفع کرنے کو حیلے بھی پیدا کئے ہیں مگر وہ امیروں کے لئے ہیں اوسط اور ادنیٰ درجہ کے لوگ ان سے محروم ہیں۔ البتہ سکاٹ لینڈ کے قانون بعض باتوں میں کچھ معقول ہیں مگر پھر بھی سب کے سب احکام الہٰی اور وحی کی اصلاح کی محتاج ہیں۔ (اسلام کی دنیوی برکتیں ص ١٨) منہ۔