فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ
آخر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو پکارا [٢٣] جو اس کے (مارنے کے) درپے ہوا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں۔
یہ تقسیم جب ان کو ناگوار ہوئی پس انہوں نے اس بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کا مشورہ کیا۔ اور اپنے رفیق کار کو بلایا جو اس کام کو کرنے کا مدعی بنا تھا۔ تو اس نے اپنی بدمعاشی اور شرارت کی وجہ سے اس اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں وہ مر گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ اس کے مرنے سے ہمارا گھاٹ خالی ہوجائے گا۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ جس نے اسے بھیجا ہے وہ ہمارے گھات میں ہے۔ آخر اس نے جو اس کو خاص کیفیت سے بھیجا ہے تو وہ اس کی حمایت بھی کرے گا۔ اس امر پر انہوں نے غور نہ کیا یا کیا۔ مگر سرکشی اور طغیانی ان پر غالب تھی اس لئے وہ اس طرف نہ جھکے ان لوگوں نے اسپر ظلم کیا کہ اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ یہانتک جب پہونچے تو عذاب الٰہی ان پر آگیا۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ فعقروھا فدمدم علیھم ربھم بذنبہم فسوھا ثمودیوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹیں تو اللہ نے ان پر عام عذاب نازل کیا۔ پس یہ تھی وجہ اعجاز پیدائش کی حیثیت سے کہیں ثبوت نہیں ملتا۔ چنانچہ امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ واعلم ان القران قددل علی ان فیھا ایۃ فاما ذکر انھا کانت ایۃ من ای الوجوہ فھو غیر مذکور والعلم حاصل بانھا کانت معجزۃ من وجہ لا محالۃ واللہ اعلم (تفسیر کبیر جلد ٤۔ زیر آیت والی ثمود اخاھم صلحا) یعنی ناقہ کا معجزہ ہونا تو ثابت ہے مگر یہ ثابت نہیں کہ کس وجہ سے معجزہ تھی۔ لیکن ہم نے اس کی وجہ اعجاز بتا دی ہے۔ اللہ اعلم (منہ)