إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ
(اے صالح!) ہم اونٹنی کو ان کے لئے آزمائش بنا کر بھیج رہے ہیں۔ تم صبر کے ساتھ ان (کے انجام) کا انتطار کرو
دیکھو ہم (اللہ) ایک عجیب قسم کی اونٹنی ان کے جانچنے کو بھیجنے والے ہیں تاکہ اس کی وجہ سے ان کی بداعمالی کا اپنے پرائے لوگوں کو علم ہوجائے پھر جو ہم ان پر عذاب بھیجیں تو کسی با انصاف کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ پس تو اے صالح ! ان کی تباہی کا انتظار کر اور ان کی بدگوئی پر صبر کر جلدی تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے حضرت صالح کی اونٹنی کو اٰیۃ کہا گیا۔ اس میں بھی سابق تحقیق ملحوظ رہنی چاہئے کہ ایۃ سے کیا مراد ہے۔ آئیتہ قدرۃ یا آئتہ نبوۃ۔ آیتہ قدرت ایک تنکا بھی ہے تو ایک پہاڑ بھی۔ آیات قدرت اثبات نبوۃ میں پیش نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ آیت نبوۃ پیش ہوتی ہیں۔ مثلا کوئی شخص دعوے نبوۃ کرے اور نشان مانگنے پر کہے کہ یہ پہاڑ دیکھو یہ گھاس کا تنکا نشان دیکھو۔ تو اس سے اس کی نبوت ثابت نہ ہوگی۔ بلکہ اثبات نبوۃ کے لئے نشان نبوۃ دکھانا ہوگا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو ناقہ بطور آئتہ کے دیگئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے متعلق یہ الفاظ ہیں۔ والی ثمود اخاھم صالحا قال یقوم اعبدواللہ ما لکم من الہ غیرہ قدجاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ۔ (اعراف۔ رکوع ١٧) (یعنی حضرت صالح کو ہم نے اونٹنی بطور نشان کے دی تھی) ایک مقام پر فرمایا۔ اتینا ثمود الناقۃ مبصرۃ فظلموبھا (بنی اسرائیل) (ہم نے ثمود قوم صالح کو اونٹنی کھلی نشانی دی) اس آیت میں اس ناقہ کو آئتہ مبصرۃ کہا گیا ہے۔ یعنی واضح نشان۔ اس قسم کی ساری آیات سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ ناقہ صالح آیۃ نبوۃ تھی۔ جس سے حضرت صالح کی نبوۃ کا ثبوت ہوتا تھا۔ نہ یہ کہ وہ محض ایک نشان قدرت تھی جو اثبات نبوت میں کام نہ دے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس اونٹنی میں نشان نبوۃ کیا تھا اور کس حیثیت سے تھا۔ اس کے متعلق بعض مفسرین نے اظہار کیا ہے کہ وہ حضرت صالح کی دعا کے ساتھ پتھر سے پیدا ہوئی تھی۔ مگر میری ناقص تحقیق میں یہ ہے کہ اس کی پیدائش کا تو ذکر قرآن میں یا حدیث میں نہیں البتہ اس کی خاص بات جو وجہ اعجاز ہوسکتی ہے۔ یہ ہے اس کی صفت میں فرمایا۔ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم ایک حصہ پانی اسکا حق ہے اور ایک حصہ تم ثمودیوں کا اسی سورۃ قمر میں فرمایا۔ نبئہم ان الماء قسمۃ بینھم کل شرب محتضر پانی ان لوگوں میں اور اونٹنی میں برابر تقسیم ہے پس ہر ایک حصہ ہر فریق کا گھاٹ ہے۔ اس پر وہ بہت تنگ ہوئے اور انہوں نے اس اونٹنی کو بجائے نشان نبوۃ ماننے کے اس کو مار دینا چاہا۔ چنانچہ ارشاد ہے (فظلموابھا)