أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ
کیا بھلا تم نے لات و عزیٰ (دیویوں) پر بھی غور کیا ؟
(19۔30) کیا بھلا تم نے اپنے ان معبودوں لات‘ عزیٰ اور تیسرے منوٰۃ پر بھی کبھی غور کیا۔ یہ کیا ہیں ؟ سنو ! تمہارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے مصنوع ہیں کیا تم ان میں معبودیت کی کوئی نشانی پاتے ہو؟ پھر کیوں ان کو پوجتے ہو۔ کیا یہ خیال تمہارا بالکل ایسا ہی ہے جیسا تم گمان کرتے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کیا تمہارے لئے بیٹے یعنی نرینہ اولاد اور اللہ کے لئے بیٹیاں ؟ سبحان اللہ ! سچ تو یہ ہے کہ یہ تقسیم بڑے نقصان والی ہے۔ نقصان کس کا ؟ لڑکی والے کا۔ تم لوگ جس کمی رتبے کی نگاہ سے لڑکی والے کو دیکھتے ہو۔ وہ تمہیں خوب معلوم ہے۔ اس حیثیت سے اللہ کی جانب نقصان میں رہے گی۔ پھر تو تم مخلوق ہو کر خالق سے اچھے رہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ تمہارے معبود صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ کسی کا نام مشکل کشا رکھا ہے تو کسی کا حاجت روا۔ کسی کا داتا گنج بخش ہے تو کسی کا دستگیر۔ یہ سب نام ہی نام ہیں اصل حقیقت میں اس وصف کی کوئی مخلوق نہیں ہے اللہ نے ان ناموں پر کوئی نقلی دلیل نہیں نازل فرمائی بلکہ یہ لوگ دراصل صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں جدھر ان کے مجلسی دوست اور برادری کے لوگ پرانی رسوم کے ماتحت بلاتے ہیں ادھر ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کے ہاں سے رہنمائی کے لئے بذریعہ قرآن آچکی ہے کیا اس ہدایت کو چھوڑ کر کوئی انسان من مانی خواہش پا سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں کیونکہ اول آخر سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی سعی کو نتیجہ آور بنانا اللہ ہی کا کام ہے اور کسی دوسرے کا نہیں۔ سنو ! آسمانوں میں کئی فرشتے ہیں جو خود تو کسی کی مدد کیا کریں گے۔ ان کی سفارش بھی جو اللہ کو منظور نہ ہو کسی کام نہیں آتی۔ لیکن اللہ کے اجازت دینے اور پسند کرنے کے بعد مفید ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے سفارش بھی اللہ ہی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ لہٰذا کسی سفارشی کی پوجا بھی جائز نہیں پس تم ان غلط خیالات کو چھوڑو اور اللہ کی خالص توحید پر ایمان لائو۔ اور سنو ! جو لوگ آخرت سے منکر ہیں وہ فرشتوں کو عورتیں کہتے ہیں اور ان کا نام بنات اللہ تجویز کرتے ہیں حالانکہ اس بارے میں کوئی علم نہیں سوائے اٹکل پچو باتوں کے اور یہ تو قانون عقلی ہے کہ حقانیت کے موقع پر جہاں دلائل قطعیہ کی ضرورت ہو وہاں ظنی اور وہمی امور کچھ فائدہ نہیں دے سکتے پس تو اے نبی ! یہ عقلی اور نقلی ہدایت ان کو سنا دے اور اس سنانے کے بعد بھی جو کوئی ہماری ہدایت سے روگردانی کرے اور سوائے دنیاوی فوائد کے کچھ نہ چاہے۔ یعنی اس کی غرض وغائت صرف یہ ہو کہ جس طرح بن پڑے دنیا مل جائے اللہ ملے نہ ملے مگر فوائد دنیا حاصل ہوجائیں ایسے لوگوں سے تو بھی روگردانی اختیار کیجو کیونکہ ان کا منتہائے علم یہی ہے بھلا تم ان کو کیا سمجھائو گے۔ ان کا اور تمہارا اصولی اختلاف ہے تم اس اصول پر ہو کہ علم کا نتیجہ دیر پا اور انجام بخیر ہونا چاہیے اور وہ اس اصول پر ہیں کہ نقد ادہار سے بہر حال بہتر ہے اس لئے وہ فوری فوائد کے حاصل کرنے میں کو شان رہتے ہیں اور اخروی اور دائمی فوائد سے غافل ہیں یہ ان کے علم کا منتہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے علم سے دائمی اور پائدار فائدہ حاصل کرتے۔ جس علم سے پائدار فائدہ نہیں وہ علم نہیں جہل ہے ایسے لوگ گوزبان سے کتنا ہی بنیں اور اپنے آپ کو بنائیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے جو بہکے ہوئے ہیں وہ ان کو خوب جانتا ہے اور جو اس کی راہ پر ہدایت یاب ہیں ان کو بھی خوب جانتا ہے اسے کسی کے بتانے اور جتانے کی حاجت نہیں اس کا علم سب کو شامل ہے کیونکر شامل نہ ہو جبکہ وہ بذاتہ نور ہے