وَفِي مُوسَىٰ إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور موسیٰ (کے واقعہ میں بھی) ایک نشانی (ہم نے چھوڑی ہے) جب ہم نے اسے صریح [٣٢] معجزہ دے کر فرعون کی طرف بھیجا
(38۔60) اسی طرح فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں عبرت کے نشان ہیں خاص کر جس وقت ہم (اللہ) نے اس حضرت موسیٰ کو فرعون کی طرف روشن حجت کے ساتھ بھیجا یعنی صاف صاف اور صریح معجزات اور آیات بینات اس کو دیں تاکہ وہ ایسے با جبروت بادشاہ (فرعون) کے سامنے مغلوب نہ ہو۔ حضرت موسیٰ روحانی قوت سے دربار فرعونی میں پہنچے تو فرعون نے اس کے معجزات دیکھ کر اپنے زور کے گھمنڈ سے روگردان ہوا اور بولا کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے یا پاگل۔ جادوگری تو اس میں یہ ہے کہ جو اس کے پاس جاتا ہے اسی کا ہوجاتا ہے او پاگل پن اس میں یہ ہے کہ ایسے بڑے شاہ زور بادشاہ کی مخالفت کرتا ہے جو ایک اشارہ سے اس کو فنا کردے۔ پس اس کا یہ کہنا تھا کہ ہمارا غضب جوش میں آیا۔ تو ہم نے اس کو اور اس کی فوج کو پکڑ کر دریا میں غرق کردیا ایسے حال میں کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ بس اس کی ساری شیخی کر کری ہوگئی۔ کسی عارف نے کیا سچ کہا ہے۔ حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے اور سنو ! قوم عاد کے واقعات میں بھی بہتیرے قدرتی نشان ہیں خصوصا جس وقت ہم نے ان پر ایک مضر تیز ہوا چلائی۔ جس سے وہ سب تباہ ہوگئے اس کی خاصیت تھی کہ جس چیز کو چھو جاتی اس میں سے روح نکال کر اسے چورا کردیتی غرض قوم عاد خود اور ان کا سب سامان اسی ہوا سے تباہ ہوگیا۔ اور سنو ! قوم ثمود میں بھی کئی نشان ہیں جب ان کو کہا گیا کہ تم لوگ ایک وقت خاص تک دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھا لو کیونکہ تمہاری اجل قریب ہے پس یہ سن کر وہ بجائے مستفید ہونے کے الٹے اکڑے اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکش ہوگئے۔ لگے اکڑنے اور اترانے پھر کیا تھا قہر الٰہی نے ان کو آ دبایا جبکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے پھر تو ایسے مر مٹے کہ نہ تو وہ اپنی جگہ پر کھڑے رہ سکے نہ اپنی مدد کرسکے اور سنو ! ان سے بہت مدت پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم کو ہم نے تباہ اور ہلاک کیا تھا۔ کیونکہ وہ بدمعاش اور بدکار لوگ تھے ان کی بدکاری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ قریب ہزار سال کے حضرت نوح نے ان کو سمجھایا مگر وہ راستی پسند نہ ہوئے اور ہمارے نشانات انہوں نے نہ دیکھے اور کفر ہی پر اڑے رہے۔ اب بھی غور کرنے والے غور کریں۔ تو ان کو کافی ہو۔ دیکھو آسمان جو اتنا بڑا بلند اور بے ابتدا اور لاانتہا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سب ہم نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم بہت بڑی فراخی اور وسعت والے ہیں۔ ہماری وسعت قدرت کے سامنے یہ آسمان اور یہ زمین کیا چیز ہیں۔ یہ تو ہماری مقدورات میں ایک معمولی نمونہ ہیں۔ جن لوگوں نے نظام عالم پر غور کیا ہے وہ ہماری وسعت قدرت کا اندازہ جان سکتے ہیں۔ کسی اہل دل نے کیا اچھا کہا ہے مٹی سے ہوا سے آتش وآب سے یاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں پر تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہ غیب میں اسی طرح نہاں دیکھو ہم ہی نے یہ زمین فرش کے طور پر بچھا دی اور ہم کیسے اچھے فراش ہیں دیکھو تو اسی زمین پر تم رہتے ہو۔ اسی پر تم کھیتی کرتے ہو۔ اسی پر تم مکان بناتے ہو۔ اسی میں تمہارے لئے پانی کے چشمے ہیں کیا اب بھی کسی کو ہماری نعم الماھد ہونے میں شک ہے اور سنو ! اسی آسمان وزمین کی پیدائش پر کیا حصر ہے۔ ہم نے ہر چیز کی دو دو قسمیں پیدا کی ہیں ایک ادنیٰ اور ایک اعلیٰ اپنے مالک کے آموں اور دوسری میوجات کو دیکھو کیسی کیسی قسمیں پیدا کی ہیں تاکہ تم آثار قدرت دیکھ کر نصیحت پائو۔ پس اے نبی ! یہ بھی ان لوگوں کو کہہ دو کہ تمہاری نصیحت پانے کے یہ معنی نہیں کہ معمولی طور پر سبحان اللہ کہہ دیا کرو۔ بس۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ تم لوگ اللہ کی طرف لپک کر آئو۔ یعنی اسی کے ہو رہو۔ اسی سے مانگو۔ اسی کے آگے گڑگڑائو۔ دیکھو میں اسی کی طرف سے تم کو صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ یعنی صاف صاف لفظوں میں سناتاہوں کہ برے کاموں کا نتیجہ برا ہے پس تم برائیوں سے باز آئو۔ خاص کر شرک جیسی برائی سے بالکل الگ رہو۔ اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود مقرر نہ کرو نہ کسی نبی کو نہ ولی کو نہ کسی بت کو نہ دیوی کو نہ کسی پہاڑ کو نہ زمین کو۔ کیونکہ یہ سب چیزیں اس کی مخلوق ہیں نہ کسی کو اس کے سامنے ہستی کا دعویٰ ہے۔ بالکل سچ ہے۔ ؎ ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی سنو ! میں یقینا تم کو اس اللہ کی طرف سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ لوگو ! اللہ کے عذاب سے بچ جائو۔ مگر دنیا دار لوگ اپنی اغراض ومقاصد میں پھنسے ہوئے منہمک ہیں وہ ایسے صاف صاف سنانے والوں کو بنظر حقارت دیکھتے اور سنتے ہیں اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس بھی جب کبھی کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہی کہا یہ جادوگر ہے یا مجنون۔ یہ مختلف اقوال اس لئے تھے کہ بعض نے وہ کہا اور بعض نے یہ۔ باوجود بعد زمانہ کے یہ لوگ خیالات وعقائد میں پہلے لوگوں سے متفق ہیں۔ کیا انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اس کام کی وصیت کر رکھی ہے کہ ہمارے بعد تم نے بھی ایسا کرنا۔ ان دونوں قوموں کے حالات دیکھنے والے کو خیال ہوگا کہ ایسا ہی کیا ہوگا مگر دراصل یہ بات نہیں بلکہ یہ لوگ بذات خود سرکش قوم ہیں۔ پس تو اے نبی ! ان سرکشوں سے منہ پھیر لے یعنی بعد تبلیغ کے ان کی بے ہودہ گوئی کی کچھ پرواہ نہ کر ایسا کرنے میں تجھ کو کسی طرح کی ہماری طرف سے یا پبلک کی جانب سے کوئی ملامت نہیں۔ ہاں تو اپنے کام میں لگا رہ اور وعظ ونصیحت کرتا رہ۔ کیونکہ نصیحت ایمانداروں کو فائدہ دیا کرتی ہے۔ کسی سرکش گروہ کی سرکشی یا کسی مخالف شخص کی مخالفت سے اصلاح کا کام چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ورنہ کسی وقت بھی اصلاحی کام نہ چل سکے گا۔ کیونکہ جب کبھی بھی اصلاح شروع کی جائے گی معاندین مقابلے پر کھڑے ہوجائیں گے تو کیا ان کے ایسا کرنے سے کام چھوڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ جہاں سرکش اور مفسد لوگ ہیں۔ سلیم القلب اور اصلاح پسند بھی دنیا میں موجود ہیں۔ میرے (اللہ کے) نزدیک وہی لوگ مومن ہیں اور وہی لوگ خلق کائنات کے مقصود کے حصول کا ذریعہ ہیں کیونکہ میں (اللہ) گو اپنی ذات میں غنی ہوں مجھے اپنے افعال میں کوئی ذاتی غرض ملحوظ نہیں ہوتی جس سے میری ذاتی تکمیل ہو۔ اور میں اپنا کوئی نقصان پورا کروں مگر یہ بھی تو ہے کہ بغیر کسی خاص غرض کے کوئی کام کرنا عقلمندی اور حکمت سے خالی ہے۔ اس لئے میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اس عبادت کرانے سے میری ذات میں کوئی تکمیل نہیں ہوگی بلکہ انہی کا فائدہ ہوگا اور میں ان کو پیدا کر کے ان سے رزق کا طالب نہیں ہوں۔ اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ تنگی اور بھوک کے وقت مجھے کھانا کھلائیں ان تمام شبہات کے رفع کرنے کو اعلان کر دیجئے کہ اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا زبردست ہے۔ باوجود محتاج اور مرزوق اللہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ اللہ کے بے فرمانی سے ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں تو جو لوگ ایسا ظلم کرتے ہیں جس میں مخلوق کی حق تلفی ہوتی ہے ایذا رسانی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ بوجہ شرک وکفر کے اللہ کی بھی حق تلفی ہوتی ہے۔ ان ظالموں کے ذمہ بہت سے گناہ لگے ہوئے ہیں جیسے ان سے پہلے لوگوں کے ذمہ تھے جو ایک روز ان کو بھگتنے ہوں گے۔ پس یہ لوگ جلدی نہ کیا کریں۔ وقت آتا ہے انکو معلوم ہوجائے گا۔ کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ پھر جس دن کے عذاب سے ان کو ڈرایا جاتا ہے اس دن منکروں کے لئے اس روز افسوس ہوگا۔ وہ خود اپنی حالت کو قابل افسوس پائیں گے۔ مگر وہ پچھتانا انکو مفید نہ ہوگا۔ بہتر ہے کہ اس سے پہلے ہی انتظام کرلیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار