هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) کیا آپ کے پاس [١٨] ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات [١٩] بھی پہنچی؟
(24۔37) کیا تم کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آنے والے معزز مہمانوں کی صورت میں فرشتوں کا قصہ پہنچا ہے؟ جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام عرض کیا۔ حضرت ابراہیم نے بھی جواب میں سلام کہا۔ چونکہ وہ فرشتے تھے جو نقصان اٹھانے والی قوم لوطیوں کی تباہی کے لئے بھیجے گئے تھے اس لئے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ان کو پہچان نہ سکے۔ اور دل میں خیال کیا کہ یہ لوگ بالکل اجنبی ہیں مگر مہمانداری کے خیال سے ان کے کھانے کی فکر میں اپنے گھر والوں کی طرف جلدی گئے اور موٹے تازے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور لا کر ان کے سامنے قریب رکھ دیا۔ مگر وہ فرشتے تھے وہ کیسے کھاتے۔ جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کھانے کی طرف نہیں جھکتے۔ تو حضرت ابراہیم نے ان کو کہا کیا تم لوگ کھایا نہیں کرتے؟ اگر کھاتے ہو تو اسے کیوں نہیں کھاتے؟ اور اگر نہیں کھایا کرتے تو کیوں نہیں کھاتے؟ ان کی خاموشی اور ترک طعام سے حضرت ابراہیم دل میں ڈرے کہ یہ اللہ کے فرستادہ ہیں اللہ نہ کرے کہ اس بستی پر کوئی عذاب نازل کریں چنانچہ حضرت ابراہیم کے چہرہ سے خوف محسوس ہوتا تھا یہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا حضرت ! اندیشہ نہ کیجئے آپ کے اور آپ کی بستی کے برخلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی بلکہ ہم تو ایک اور بدکار قوم کی طرف آئے ہیں۔ درمیان میں آپ سے بھی شرف نیاز حاصل کرنے کا حکم تھا اور ایک بات کی بابت آپ کو خوش خبری عرض کرنی تھی۔ یہ کہہ کر انہوں نے حضرت ابراہیم کو ایک حلیم‘ سلیم علمدار لڑکے کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی کہ اللہ آپ کو ایک فرزند دلبند عطا کرے گا۔ سو یہ سن کر ان کی بیوی سارہ بولتی ہوئی حیرت زدہ آگے آئی اور عورتوں کی طرح اپنے ماتھے کو پیٹ کر بولی میں جنوں گی؟ میں تو عمر کی بوڑھی اور اولاد سے بانجھ ہوں۔ میاں ہر کام کا وقت ہوتا ہے۔ ساری عمر نہ جنی تو اب کیا خاک جنوں گی؟ آپ کی مراد شائد بجائے حقیقت کے مجاز ہوگی یعنی بجائے میرے۔ کسی قریبی کو اولاد ہوگی یہ سن کر فرشتوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ واقعہ تو یہی ہے کہ آپ بوڑھی ہیں بانجھ ہیں مگر ہم بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے۔ بلکہ آپ کے پروردگار کا حکم سناتے ہیں اس نے فرمایا ہے کہ میں بڑی حکمت والا علم والا ہوں۔ (ہمارے ملک پنجاب کے ملہم مرزا صاحب قادیانی نے بھی بخیال خویش الٰہی الہام سے اعلان کیا تھا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا جو دنیا کو نور اور ہدایت سے بھر دیگا۔ جب ایک لڑکا پیدا ہوا تو مرزا صاحب موصوف نے عام اشتہار دیا کہ یہی موعود لڑکا ہے مگر وہ چند ماہ زندہ رہکر مر گیا۔ نہ اس سے دنیا کو ہدایت پہونچی نہ نور۔ تفصیل اس کی ہماری کتاب ” تاریخ مرزا“ میں ملتی ہے (منہ) میرے سامنے کوئی کام ان ہونا نہیں میرے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ میں سب کچھ جانتا اور سب کچھ کرسکتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا اے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولو ! تمہارے انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر تمہارا آنا سرسری ہے تو اصل کام تمہارا کیا ہے ؟ جس کے لئے تم آئے ہو۔ وہ فرشتے بولے ہم ایک بدکار قوم لوطیوں کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر مٹی کے جمے ہوئے پتھر برسائیں۔ جو تیرے پروردگار کے پاس بے ہودہ لوگوں کے لئے مقرر ہوچکے ہیں۔ یعنی ایسے لوگوں کی سزا جو بصورت سنگ باری اللہ کے ہاں مقرر ہے وہ ان کو دینے کے لئے ہم دنیا میں آئے ہیں حضرت ابراہیم نے ان کے اس کہنے پر چند سوال کئے جن کے جواب ان کو دئیے گئے۔ چنانچہ وہ فرشتے حضرت ابراہیم سے فارغ ہو کر حضرت لوط کی بستی میں آئے تو ہمارے حکم سے انہوں نے ان کو ہلاک کردیا یہ نہیں کہ بلا تمیز ساری بستی کو مار ڈالا بلکہ جو لوگ اس میں باایمان رہتے تھے ہم نے ان کو ان تباہ ہونے والوں میں سے نکال لیا تھا۔ اور باقی لوگوں کو ہلاک کردیا۔ مگر ساری بستی میں ہم نے ایک گھر سے زیادہ کوئی مسلمان نہ پایا۔ افسوس آنچہ پر جستیم وکم دیدیم وبسیار ست ونیست نیست جز مسلم دریں عالم کہ بسیار ست ونیست اور جو لوگ اعمال بد کی سزا میں دردناک عذاب سے ڈرا کرتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے ہم نے اس بستی میں ایک بہت بڑی نشانی باقی رکھی جو اس کی کھنڈر کی صورت میں تھی بعد ہلاکت جو بستی کو دیکھتا وہ حیران ہو کر کہتا۔ ؎ ابھی اس راہ سے گذرا ہے کوئی کہے دیتے ہے شوخی نقش پاکی