أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان لوگوں کے دلوں پر [٢٨] قفل چڑھے ہوئے ہیں۔
(24۔30) بھلا یہ لوگ جو قرآنی تعلیم سے اتنے بدکتے ہیں کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر غفلت کے تالے لگے ہوئے ہیں در حقیقت دونوں باتیں ہیں مگر پچھلی بات پہلی کا سبب ہے یعنی ان کے دلوں پر غفلت کا پردہ ہے۔ اس لئے یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے۔ اس کی تہ کا پردہ بھی ہم بتائے دیتے ہیں کہ جو لوگ ہدایت معلوم ہوجانے کے بعد بھی الٹے پائوں چاہ ضلالت کو جاتے ہیں۔ شیطان نے ان کو دھوکہ دے رکھا ہے اور ان کو بہتری کی امیدیں دلا رکھی ہیں۔ دنیا عالم اسباب ہے ان کی اس گمراہی کا بھی ایک سبب ہے۔ یہ اس لئے اس حد تک پہنچے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے کلام کو ناپسند کرتے ہیں یعنی قرآن شریف کے منکر ہیں یہ لوگ مرتدیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے ان کو کہتے تھے کہ ہم بعض باتوں یعنی ان امور میں جو مسلمانوں کی ترقی کی سدراہ ہوسکتے ہیں ہم تمہاری ہی صلاح مانا کریں گے اور مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا کریں گے یعنی خفیہ طور پر انہوں نے بغاوت کے منصوبے باندھ رکھے تھے اللہ تعالیٰ ان کی سرگوشیوں کو خوب جانتا ہے پس تم مسلمان بے خوف وخطر رہو وہ تم کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے اس وقت تو یہ ادھر ادھر کی لگاتے پھرتے ہیں۔ بھلا اس وقت کیا کریں گے اور کس کو حمایتی تلاش کریں گے جب فرشتے ان کو فوت کرتے ہوئے ان کے مونہوں اور پیٹوں کو ضربیں لگائیں گے ایسی حالت میں ان کی جانیں نکالیں گے یہ اس لئے کہ جو طریق اللہ کو ناپسند ہے یہ لوگ اسی پر چلتے رہے ہیں۔ اور اللہ کی خوشنودی کو ناپسند کرتے رہے تو اللہ نے بھی ان کے کئے کرائے اعمال ضائع کر دئیے اس لئے تم مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے پرہیز کرنا چاہیے کیا جن کے دلوں میں اسلام کی عداوت کا مرض ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی عداوتیں نکال نہیں پھینکے گا یعنی ایسے واقعات ظہور پذیر نہ ہوں گے کہ یہ لوگ یا تو اسلام میں آجائیں گے یا مارے غصے اور موت کے فنا ہوجائیں گے جس پر یہ شعر ان کے حق میں صادق آئے گا۔ ؎ بمیرتا برہی اے حسود ! کیں رنجیست کہ از مشقت آں جز بمرگ نتواں رست اس آیت کے نزول تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقوں کی تشخیص کا علم نہ تھا بعد اس کے کرایا گیا جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت نے حضرت حذیفہ صحابی کو بتا دیا تھا (منہ) اور اگر ہم (اللہ) چاہتے تو تجھ کو وہ دشمنان اسلام دکھا دیتے پچنوا دیتے پھر تو ان کے چہروں کے نشانوں سے ان کو پہچان لیتا۔ ایسا کہ ان کی پہچان اور تشخیص میں تجھے اے نبی ! کوئی شک وشبہ نہ رہتا۔ جب سامنے آتے ان کی شخصیت کے ساتھ ہی ان کی صفت قبیحہ تیری نظر میں آجاتی۔ اب بھی تو ان کے طرز گفتگو میں ان کو پہچان لیتا ہے۔ کیونکہ ان کی گفتگو میں بناوٹ ہوتی ہے اور مخلص مؤمنوں کی گفتگو بناوٹ سے پاک صاف ہوتی ہے۔ اور اللہ کو تمہارے اعمال سب معلوم ہیں اس سے تو کوئی چھپا ہی نہیں