يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
اے لوگو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت [٩] قدم رکھے گا۔
(7۔14) مسلمانو ! سنو ! ہم تم کو ایک اصول بتاتے ہیں جو تم کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ چاہے تم تخت پر ہو یا تختے پر ہر حال میں اس اصول کو مدنظر رکھا کرو۔ وہ یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور بوقت تکلیف اور بموقع جنگ تمہارے قدم مضبوط کرے گا اور تم کو پختہ رکھے گا۔ پھر تم جہاں جائو گے فتح پائو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کیا تم نے ان طبقہ اولیٰ کے مسلمانوں کا حال نہیں سنا؟ فتح اک خادمہ ان کی تھی اور اقبال غلام مختصر یہ ہے کہ پلے پہ اللہ رکھتے تھے یہ حال تو مسلمانوں کا ہے کہ ان کی ثابت قدمی اور نصرت دینی پر ان سے ترقی اور کامیابی کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو لوگ قرآنی تعلیم سے منکر ہیں ان کی تباہی ہوگی اور اللہ ان کے کئے کرائے اعمال سب ضائع کر دے گا۔ کسی اچھے کام کا بدلہ ان کو نہیں ملے گا۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی اتاری ہوئی کتاب (قرآن شریف) کو ناپسند کیا اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کے نیک اعمال ضائع ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے ان کے نیک کام سب ضائع کر دئیے اب ان کا نیک بدلہ ان کو نہ ملے گا۔ کیا یہ لوگ اپنے اردگر دملک میں پھرے نہیں کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا سنو ! ہم بتاتے ہیں یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو تباہ اور بالکل برباد کردیا۔ سنو ! اور کان کھول کر سنو ! کہ ان کافروں کے لئے جو تمہارے سامنے ہیں اس مصیبت سے کئی گنا زیادہ عذاب اللہ کے ہاں مقرر ہے یہ فرق ( کہ مؤمنوں کو کامیابی اور منکروں کی ناکامی) اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی ایمانداری اور راست بازی کی وجہ سے ان کا حامی ہے اور کافروں کی بے ایمانی اور دغابازی کے سبب سے ان کا کوئی حامی مددگار نہیں۔ سنو جی ! اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور نیک عمل کرنے والوں یعنی بھلے لوگوں کو جنتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور جو لوگ کافر یعنی بے ایمان اور بد اعمال ہیں ان کی حالت ان کے برعکس ہوگی۔ دنیا میں ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے بے فکری سے مزے کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے چارپائے کھاتے ہیں جس طرح چارپائے بعد کھانے پینے کے نہ کسی کا شکریہ اپنے پر واجب جانتے ہیں نہ احسان مانتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اللہ کے انعامات کا شکریہ ادا نہیں کرتے اس لئے ان کا انجام برا ہوگا اور آگ میں ان کا ٹھکانہ ہوگا۔ اس قسم کا واقعہ کوئی آج ہی نہیں پیش آیا بلکہ بہت پہلے بھی ایسا ہوتا رہا جس بستی (مکہ) والوں نے تجھ کو ( اے محمد) تیرے گھر (مکہ) سے نکالا تھا یعنی بذریعہ تکلیفات شدیدہ کے نکلنے پر تجھے مجبور کیا اور اللہ نے بخیرو عافیت تجھے مدینہ منورہ میں جا بسایا تھا۔ اس بستی سے بہت زیادہ قوت والی کئی بسیایں دنیا میں پیدا ہوچکی ہیں ان کو ہم (اللہ) نے تباہ کردیا پھر اس کا کوئی مددگار نہ ہو سگا۔ جیسے عاد‘ ثمود‘ لوطی‘ نوحی‘ فرعونی وغیرہ وغیرہ سب تباہ کئے گئے اسی طرح ان تیرے مخالفوں کا حشر ہوگا۔ کیا ان کو اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی؟ بھلا جو شخص اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہے وہ ان بدنصیبوں کی طرح ہے ؟ جن کو اپنے برے کام بھلے معلوم ہوتے ہیں اور وہ اپنے من کی خواہشات کے پیرو بن رہے ہیں اسی وجہ سے وہ کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے برے کاموں کی برائی معلوم نہیں ہوتی بلکہ بجائے برائی کے بھلے معلوم ہوتے ہیں پھر وہ چھوڑیں تو کیونکر؟ کون ان دونوں کو یکساں کہے گاَ ؟ ہرگز نہیں۔ پہلے لوگ اللہ کے مقبول ہیں۔ اور دوسرے مردود۔ پہلی قسم کے لوگوں کا نام اللہ کے نزدیک متقی ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ اللہ کی طرف سے وعدہ جنت ہے