اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ ہی ہے جس نے سمندر [١٥] کو تمہارے تابع کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں۔ اور تم اس کا فضل [١٦] تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو
(12۔20) سنو ! اللہ یعنی تمہارا معبود وہ ہے جس نے تمہارے لئے دریا اور سمندر کو قابو کر رکھا ہے تاکہ اس کے حکم یعنی قانون سے اس میں جہاز اور کشتیاں چلیں اور تم کو دوسرے کنارہ پر پہنچا دیں اور تاکہ تم لوگ اہل دنیا بذریعہ تجارت اللہ کا فضل حاصل کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور سنو ! جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی اللہ نے اپنے حکم سے تمہارے لئے کام میں لگا رکھا ہے کیا تم نے عارف شیرازی مرحوم کا قول نہیں سنا؟ ابروبادومہ وخورشید وفلک ورکارند تا تونا نے بکف آرمی وبغفلت نہ خوری اینہمہ بہر تو سرگشتہ وفرمانبردار شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری اس بیان میں کہ تمام کائنات اللہ کے حکم سے مخلوق ہیں اور اسی کے حکم کے ماتحت ہے فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ایسی بانظام پیدائش جس کے نتائج بھی بانظام ہوں بے شک کسی بڑے مدبر کے بنانے سے بنی ہے جس کی نظیر دوسری نہیں باوجود اس واضح بیان کے یہ لوگ ادھر ادھر بہکے جاتے ہیں اس لئے تو اے نبی ! ہمارے ایماندار نیک بندوں کو کہدے کہ جو لوگ اللہ کے ایام جزاء آخرت کی امید نہیں رکھتے بمقابلہ انبیاء اور صلحا کے ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان کو معاف کیا کریں اور درگذر کریں یعنی ان سے تعرض نہ کریں بلکہ معمولی وعظ ونصیحت کر کے باقی حوالہ اللہ کریں۔ تاکہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ اس قوم کو ان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دے۔ جو تمہارے بدلہ اور مواخذے سے زیادہ ہوگا اس دن یہ ہوگا کہ جس نے کوئی اچھا کام کیا ہوگا وہ اس کو ملے گا اور جس نے برا کیا ہوگا۔ وہ اسی کی گردن پر ہوگا پھر تم لوگ سب کے سب اللہ کی طرف پھیرے جائو گے اس مضمون کے سمجھانے کے لئے ہم نے وقتا فوقتا نبی بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو ہم (اللہ) نے کتاب تورات دی۔ حکومت اور نبوت عطا کی اور ان کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں اور جہان کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی اور ان کو دین کے کھلے کھلے احکام دئیے تاکہ راہ راست پر آویں اور دین الٰہی کی تبیغض کریں مگر پھر بھی وہ باہم مختلف ہوئے۔ محض اختلاف رائے معیوب اور مضر نہیں لیکن جب اختلاف رائے سے تجاوز کر کے مخالفت اور مخالفت سے عناد تک نوبت پہنچ جائے تو معیوب اور مضر ہوجاتا ہے ان لوگوں میں یہی بات تھی کہ مذہبی اختلاف رائے میں ایک دوسرے کے بدخواہ ہوگئے تھے پھر طرفہ یہ کہ بعد آجانے علم کے جن سے ایسے اختلاف کی برائی معلوم ہوسکتی تھی وہ لوگ محض آپس کے حسد کی وجہ سے مختلف ہوئی نکمی نکمی باتوں میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے۔ سنو ! تمہارا پروردگار قیامت کے روز ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ بہتر تو یہی تھا کہ اس فیصلے سے پہلے ہی سمجھ لیتے کیونکہ اس روز کے فیصلے کی اپیل یا تدارک نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم (اللہ) نے سابقہ نبیوں کی معرفت دنیا کے لوگوں کو خبر پہنچائی تھی اب پھر ہم نے تجھ کو ( اے محمد ﷺ) دین کی راہ پر لگایا ہے پس تو اس کی پیروی کیا کرو اور جو لوگ احکام اور حقوق الٰہی میں سے کچھ نہیں جانتے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئیو۔ کیونکہ اللہ کی پکڑ پر وہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے اور ان لوگوں کا یہ خیال کہ ہم ایک دوسرے کے حمائیتی ہیں بے شک صحیح ہے ہم بھی تصدیق کرتے ہیں کہ ظالم ایک دوسرے کے حمائیتی ہیں اور اللہ نیک بختوں اور پرہیزگاروں کا والی ہے اس کے سامنے ان کی کیا چلے گی ؟ پس تم خود ہی سوچ لو کہ کونسی جانب تم کو اختیار کرنی چاہیے آیا ظالموں کے ساتھی بننا پسند کرتے ہو یا اللہ کو اپنا ولی بنانا چاہتے ہو۔ محض تمہاری ہدایت کے لئے تم کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تعلیم قرآنی لوگوں کے لئے سمجھ بوجھ اور ہدائت ہے۔ تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔ اور جو لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں ان کے لئے تو سراسر رحمت ہے۔ اس تعلیم کا خلاصہ دو لفظوں میں ہے وہ یہ ہے ؎ از مکافات عمل غافل مشو گندم ازگندم بروئد جو زجو