سورة آل عمران - آیت 121

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب آپ صبح دم اپنے گھر سے نکلے اور مسلمانوں کو جنگ (احد) کے لیے مورچوں پر بٹھا [١١٠] رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(121۔129)۔ اور بطور نظیر اس وقت کو یاد کر اور ان کو سنا کہ دیکھو کس طرح اللہ نے کفار کے مکر تم سے دفع کیے تھے جب تو اپنے گھر والوں سے نکل کر مومنوں کو لڑائی کی جگہ بٹھا تا تھا اور کفار بھی فوجیں جرار لے کر تمہارے مارنے اور تباہ کرنے کو آئے تھے اور بڑے دعووں سے کہتے تھے کہ کسی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور جو کچھ وہ کہتے یا کرتے تھے۔ اللہ اس کو سنتا اور جانتا تھا اور اس وقت جبکہ اپنی جماعت کی قلت اور مخالفوں کی کثرت دیکھ کر تم میں سے دو قبیلوں نے پھسلنا چاہا کہ چلو نبی کو چھوڑ چلیں اور اپنی جان بچائیں مگر چونکہ اللہ ان کے اخلاص سابق کی وجہ سے ان کا والی تھا ان کے حال پر خاص نظر عنائت تھی اس لئے اس نے ان کو تھام لیا آخر کار انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اصل میں مومنوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کیا کریں تاکہ اپنی بہبودی کو پاویں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کیا کرتا شان نزول :۔ (وَاِذْ غَدَوْتَ) جنگ احد کے متعلق جو تیسرے سال ہوئی تھی) یہ آیات نازل ہوئیں۔ معالم شان نزول :۔ (اِذْھَمَّتْ طَائِٓفَتَانِ) جنگ احد میں مسلمان قریباً ایک ہزار لڑنے کو نکلے تھے جن میں سے تقریباً تین سو کے جو صرف ظاہری مسلمان اندرون منافق تھے میدان میں پہنچنے سے پہلے ہی علیحدہ ہوگئے ان کی علیحدگی کو دیکھ کر بعض سادہ لوح مسلمان سست ہوگئے مگر دراصل چونکہ یہ منافق نہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی حمایت میں لیا اور اللّٰہ ولیھما فرمایا۔ (معالم بتفصیل منہ) دیکھو تو اللہ نے جنگ بدر کے موقع پر جبکہ تم نہائت کمزور اور بے طاقت تھے تمہاری مدد کی پس تم اللہ کی نعمتوں کو غیروں کی طرف نسبت کرنے سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بنو اے نبی اس وقت کا واقعہ بھی ان کو سنا جب تو مومنوں سے کہہ رہا تھا کہ اگر تمہارے دشمن ہجوم کرکے آئے ہیں تو کوئی خوف نہیں کیا تمہیں کافی نہیں کہ تمہارا رب اور مالک آسمان سے اترے ہوئے تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے جس کا جواب تو ان کی طرف سے خود ہی دیتا تھا کہ کیوں نہیں بے شک کافی ہے بلکہ اگر تم ایسی تکلیفوں پر صبر کرتے اور حدود شرعی کی تجاوز سے ڈرتے رہو گے اور وہ تم پر ایسے ہی جوش سے چڑھے آئیں گے کہ تو آئندہ کو پانچ ہزار فرشتوں کہ لیس اور تیار فوج سے اللہ تمہاری مدد کرے گا اصل میں یہ تو اللہ نے تمہارے صرف خوش کرنے کو کیا تھا تاکہ تم گھبرائو نہیں اور تاکہ تمہارے دل اس سے مضبوط رہیں ورنہ فتح تو صرف اللہ ہی کے ہاں سے ہے۔ جو سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے تمہاری فتح اور نصرت اس لئے ہے کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک اور بعض کو مغلوب کرے بطور رفع وہم کے ہم اعلان کرتے ہیں تجھے اے نبی اس میں کوئی اختیار نہیں اللہ تعالیٰ ان سے جو چاہے معاملہ کرے مارے جلائے یا ان پر رحم کرے یا ان کو عذاب کرے گو یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں کیونکہ یقیناوہ ظالم ہیں مگر پھر بھی یہ سب اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ ہی کی ہیں وہ اپنی حکومت میں کسی کی رائے کا تابع یا کسی رکن الدولہ کا محتاج نہیں بلکہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ اور جس کو چاہے معذب کرسکتا ہے کوئی اس کے حکم کو ما نع نہیں شان نزول :۔ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ) جنگ احد میں جب آپ کو بہت تکلیف پہنچی یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک شہید ہوگئے اور سر میں بھی زخم پہنچا تو اس وقت آپ نے فرمایا کس طرح وہ قوم چھوٹ سکتی ہے جس نے اپنے نبی کا سر پھوڑا اور دانت توڑا پھر بعض کفار کے حق میں بتقاضائے طبیعت نام بنام لعنتیں کیں بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جو انجام کار مشرف باسلام ہوئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی معالم بتفصیل منہ اور یہ بات بھی بے شک ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت میں بے ضابطہ حکم نہیں کرتا بلکہ بے ضابطہ کر کے توبہ کرنے والوں کے حق میں بخشنہار اور تابعداروں پر بڑا مہربان ہے جو اس کی مخلوق سے بھلائی کرے وہ اسے بھی محبت کرتا ہے اور جو ان پر ظلم و جور کرتا ہے اسے بھی اپنی مہربانی سے پہلے روکتا ہے۔ اور اگر وہ باز نہ آئے تو مناسب طور پر پکڑ لیتا ہے