وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور داؤد کو ہم نے سلیمان عطا کیا [٣٨]۔ وہ بہت اچھا بندہ اور (اپنے پروردگار کی طرف) بکثرت رجوع کرنے والا تھا۔
(30۔40) اور ایک قصہ سنو ! بقول ؎ ایں خانہ ہمہ آفتاب ست۔ خاندان نبوت کے چشم وچراغ حضرت دائود کو ہم (اللہ) نے ہونہار لڑکا سلیمان دیا۔ جو بہت ہی اچھا آدمی تھا بے شک وہ اللہ کی طرف بڑا جھکا ہوا تھا اس کے واقعات میں وہ واقعہ خاص قابل ذکر ہے جب بعد دوپہر خاص اصیل گھوڑے اس کے سامنے بغرض جائزہ پیش کئے گئے تو خوب دیکھتا رہا آخر جب دیکھ چکا تو یہ سمجھ کر کہ لوگ نہ سمجھیں کہ میں بطور دل لگی کے ایسا کرتا رہا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ ایسا خیال کرنے سے یہ لوگ بھی بطور دل لگی ایسا کرنے لگیں اس لئے اس سلیمان نے کہا کہ میں نے ان بہترین گھوڑوں سے محبت کی اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ تو اللہ کے ذکر یعنی تعمیل حکم کے لئے کی ہے کیونکہ میری نیت اس میں دو وجہ سے نیک ہے اول یہ کہ میں چونکہ سلطان الملک ہوں میرا منصبی فرض ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں تاکہ میری بے خبری میں قوم کے مال کو نقصان نہ پہنچ جائے دوم اس نیت سے کہ یہ گھوڑے اسباب جہاد سے ہیں جس سے اللہ کے دین اور احکام کی ترقی اور بنیاد مضبوط ہوتی ہے یہاں تک ان کو دیکھتا رہا کہ وہ گھوڑے چلتے چلتے کسی اوٹ میں چھپ کر نظر سے اوجھل ہوگئے تو اس نے کہا ان کو میری طرف واپس لائو جب لائے پہلے تو نظر ہی سے جائزہ لیتا تھا پھر ان کی پنڈلیاں اور گردنیں محبت سے چھونے لگا تاکہ ان کی طاقت اور فربہی کا اندازہ کرسکے غرض یہ کہ حضرت دائود کے صاحبزادہ سلیمان علیہم السلام کے اس واقعہ سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ یہ لوگ جو کام کرتے تھے نیک نیتی سے کرتے تھے ( بعض بلکہ اکثر مفسرین اور مترجمین نے اس آیت میں یہ کہا ہے کہ گھوڑوں کو دیکھتے دیکھتے سورج غروب ہوگیا اور حضرت سلیمان کی نماز عصر فوت ہوگئی تھی اسلئے انہوں نے کہا کہ میں انکی محبت میں اللہ کے ذکر سے غافل ہوگیا۔ دوم یہ کہتے ہیں کہ تَوَارَتْ اور رُدُّوْھَا میں ھا کی ضمیریں شمس (سورج) کی طرف پھرتی ہیں یعنی سورج چھپ گیا۔ حضرت سلیمان نے جب دیکھا کہ میری عصر کی نماز فوت ہوگئی تو حکم دیا کہ سورج کو واپس لائو تاکہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں بعض حضرات نے تو ارت کی ضمیر سورج کی طرف پھیری ہے۔ مگر ھا کی ضمیر خیل (گھوڑوں) کی طرف بتلائی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سب تکلفات ہیں۔ سارے مضمون میں سورج کا نام نہیں تو ضمیر اس کی طرف کیسے پھر سکتی ہے ؟ اسلئے صحیح ترجمہ یہ ہے جو ہم نے کیا ہے اور شان نبوت کے موافق بھی ہے ہاں اگر سوال ہو کہ واسطے کے معنے کے لئے کیا لفظ ہے تو جواب یہ ہے کہ عن کا لفظ واسطے کے معنے میں آیا ہے قرآن شریف میں ہے ما کان استغفار ابراھیم لا بیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ یعنی حضرت ابراہیم کا باپ کے لئے استغفار کرنا محض ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ اسی طرح عن ذکر ربی ای لاجل عبادۃ ربی۔ والعلم عنداللہ۔ منہ) اور ایک واقعہ سنو ! ہم (اللہ) نے سلیمان کو بھی جانچا یعنی ایسے واقعات اس کے پیش آئے کہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت ہوں مثلاً ہم نے اس کو ایک بڑا بادشاہ بنایا اور اس کی کرسی یعنی تخت پر ہم نے ایک جسم بے جان یعنی کچا گرا ہوا بچہ ڈلوا دیا۔ جو اسی کا بچہ تھا۔ سلیمان چونکہ اس حمل سے متوقع تھا کہ بیٹا ہوگا اور دین کا خادم بنے گا اس لئے وہ اس واقعہ سے سمجھ گیا کہ اختیارات کلی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں پس وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا اے میرے پروردگار میری خطا معاف فرما کہ میں نے اپنے دل میں ایسے خیالات باندھے جو تیرے منشاء کے مطابق نہ تھے (یہ مضمون ایک حدیث میں آیا ہے اس کے سوا اور بھی کئی توجیہیں علماء تفسیر نے کی ہیں جو ھمکو پسند نہیں۔ منہ) اور مجھ کو ایک ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو نہ ہو یعنی مجھ کو انتظام مملکت کی اعلیٰ لیاقت بخش تاکہ میرے بعد آنے والوں کے لئے میرے قوانین سلطنت واجب العمل ہوں تاکہ بنی اسرائیل کی سلطنت کو قیام اور (اللہ) نے ہوا کو اس (سلیمان) کا تابع کردیا جہاں پر وہ جانا چاہتا اس کے حکم سے ہوا آسانی کے ساتھ چلتی جیسے آج کل ہوائی جہاز ہوا کے ذریعہ سے چلتے ہیں اور جتنے جن معمار اور سمندر میں غوطہ زن تھے ہم (اللہ) نے اس (سلیمان) کے تابع کر دئیے اور کئی ایک کو قابو کر رکھا تھا جو بوجہ سرکشی کے قیدوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یعنی انسانوں کے سوا جنوں پر بھی اس کو حکومت حاصل تھی جن سے وہ سرکاری اور ذاتی ہر طرح کے کام لیتا تھا۔ یہ بھی ہم نے اسے کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری دین (عطیہ) ہے پس تو بے حساب احسان کر یا روک رکھ غرض حسب موقع جو تو کرے تجھے حق حاصل ہے کیونکہ اس (سلیمان) کا ہمارے پاس بڑا رتبہ تھا اور بہت اچھی شان تھی۔ ان دونوں باپ بیٹے کے خیالات تو تم کو معلوم ہوچکے کہ کس طرح سے ہر ایک کام میں اللہ کریم عظمت کا ادب کرتے تھے۔ اب آئو ایک اور ہمارے بندے ایوب کا حال سنو ! اور آسمانی کتاب میں اس کا ذکر کہ جس نے اللہ کریم کے مصائب پر تمام عمر صبر کیا خصوصا اس وقت کا بھی ذکر کرو جب اس نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ میرے مولا ! مجھ کو شیطان نے بہت کچھ ایذا اور تکلیف پہنچائی ہے بیماری تو تیرے حکم سے ہے مگر وہ میرے دل میں ہر وقت ترتی طرف سے بدگمانی ڈالتا ہے کہ اللہ نے تجھ پر ظلم کیا۔ اللہ نے تجھے چھوڑ دیا۔ یہ مجھ کو سخت تکلیف ہے۔ مولا ! میرے حال پر رحم فرما اور اس تکلیف سے مجھے چھڑا۔ ہم (اللہ) نے حکم دیا کہ اپنا پیر زمین پر مار دیکھ یہ تیرے لئے ٹھنڈا غسلخانہ اور پینے کا پانی موجود ہے بس اس کے پیر مارنے کی دیر تھی کہ ہمارے حکم سے زمین میں سے پانی نکل آیا جس میں وہ نہا کر شفایاب ہوگیا اور اس کے اہل وعیال جو اس عرصہ میں اس سے الگ ہوچکے تھے وہ اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور لڑکے لڑکیاں اپنی رحمت سے ہم نے اسے دئیے تاکہ عقل مندوں کے لئے نصیحت ہو۔ وہ جانیں کہ ہر قسم کی کامیابی اللہ کی ماتحتی میں ہے اور ناکامی اسی سے ہٹ رہنے میں۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے مقصود بھی یہی ہے کہ لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں