وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور یونس بھی بلاشبہ رسولوں سے تھے
(139۔148) اور سنو ! یونس نبی (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسولوں میں سے تھا اس کی زندگی کے واقعات میں وہ واقعہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے جب وہ کسی کام کے لئے کشتی پر بیٹھنے کو لپکا تو اتفاقیہ کشتی رکی۔ کشتی والوں میں دستور تھا کہ ایسے موقع پر وہ قرعہ اندازی کرتے جس کے نام کا قرعہ نکلتا وہ کشتی سے دریا میں کود پڑتا وہ سمجھتے تھے کہ ایک آدمی کا گر پڑنا اس سے بہتر ہے کہ کشتی کے سارے سوار ڈوبیں اسی اصول کے مطابق انہوں نے قرعہ ڈالا جن میں یونس بھی بیٹھا تھا۔ اسی لئے یہ کہنا بجا ہوا کہ اس نے ان کے ساتھ قرعہ اندازی کی تو وہ اس میں مغلوب ہوگیا۔ یعنی قرعہ اسی کے نام کا نکلا جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ وہ دریا میں کود پڑتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا پس گرتے ہی مچھلی نے اس کو لقمہ بنا لیا اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا کیونکہ اس نے اللہ کی بے اجازت ہجرت کی اور بے حکم قرعہ ڈالا مگر وہ تسبیح تقدیس کرتا رہا اگر وہ اس حالت میں اللہ کے نام کی تسبیح وتقدیس نہ کرتا یعنی اللہ تعالیٰ کو پاک ناموں سے یاد نہ کرتا تو اس مچھلی کے پیٹ ہی میں قیامت تک پڑا رہتا وہیں سڑ جاتا پس اس تسبیح کی برکت سے ہم نے مچھیب کے پیٹ سے نکال کر اس کو کھلے میدان میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ بہت کمزور اور نڈھال تھا ہم نے اس کے قریب کر کے ایک درخت اگارکھا تھا جو کدو کی بیل سے ڈھکا تھا جس کے سایہ میں حضرت یونس کو راحت ملی اور وہ صحت یاب ہوا۔ بعدصحت ہم نے اس کو اسی کی قوم کے لاکھ سے زیادہ آدمیوں کی طرف رسول کر کے بھیجا جس قوم نے پہلے اس کا انکار اور تکذیب کی تھی پھر وہ ایمان لے آئے پس ہم نے ان کو ایک مقررہ وقت تک آسودگی سے گذارہ دیا۔ (حضرت یونس کا دریا میں جانے کا سبب اور دریا میں تکلیف پہنچنے کی وجہ سے کیا پیش آئی اس کی تفصیل سورۃ انبیاء میں آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ و ذالنون اذ ذھب مغا ضبا فظن ان لن نقدر علیہ فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظّٰلِمِیْن۔ یعنی حضرت یونس اپنی قوم کی روگردانی اور انکار دیکھ کر نکل گئے وہ سمجھے کہ ہم (اللہ) ایسا کرنے میں ان پر سخت گیری نہ کریں گے یعنی کسی تکلیف میں مبتلا نہ کریں گے مگر چونکہ ہماری اجازت کے بغیر وہ گئے تھے اس لئے ہم نے ان پر سخت گیری کی جس کی صورت یہ ہو رہی کہ ہم نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ وہاں وہ تسبیح پڑھتے رہے جس کی برکت سے نجات یاب ہوئے۔ یہ ہے اصل وجہ یونس کے ابتلا کی اور ابتلا کے بعد نجات کی فالحمد للہ منہ) (اس آیت میں ایک سخت مشکل ہے کہ کدو کی بیل بلند نہیں ہوتی بلکہ زمین پر پھیلتی ہے اس لئے اس کا سایہ نہیں ہوسکتا۔ نیز شجرہ تنہ دار درخت کو کہتے ہیں اور کدو تنہ دار نہیں ہوتا۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ علیہ کے معنی ” اوپر“ ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ درخت حضرت یونس کے جسم پر اگا ہو۔ ان تمام مشکلات کے حل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ منہ)