أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ
(پھر وہ خوشی سے اپنے دل میں کہے گا) کیا اب تو ہمیں موت نہیں آئے گی؟
کیا (ہم نے اللہ کا وعدہ نہیں پایا) کہ مر کر جی اٹھے ہیں۔ ) اس آیت کا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ نے یوں کیا ہے ” البتہ نیستیم ما مردہ شوندہ مگر بموت نخستیں“ اور حضرت شاہ عبدالقادر صاحب (رح) نے یوں ترجمہ کیا ہے ” کیا اب ہم کو نہیں مرنا مگر جو پہلی بار مر چکے“ مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم نے یوں ترجمہ کیا ہے ” کیا ہم ( جنتیوں کا یہ حال نہیں کہ پہلی بار مرنا تھا ( سو مر چکے) اب آگے کو ہمیں مرنا نہیں ” فارسی ترجمہ میں قرآنی حرف استفہام کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ دوسرے ترجمہ میں استفہام ہے مگر استفہام تقریری معلوم ہوتا ہے تیسرے ترجمہ میں ان دونوں سے زیادہ اغلاق ہے خطوط وحدانی کی عبارت کو اٹھا دیں تو بالکل کچھ بھی مفہوم نہیں ہوتا۔ بہر حال ان بزرگوں کے ترجمہ ناظرین کے سامنے ہیں (جزاہم اللہ) ہمارے خیال میں آیت موصوفہ کا ترجمہ کرنے سے پہلے اس کی نحوی ترکیب پر غور کرنا ضروری ہے کچھ شک نہیں کہ ہمزئہ استفہام کسی حرف پر نہیں آتا۔ بظاہر جو اس کا مدخول ہے وہ حرف (ف) ہے اس لئے ہمزئہ استفہام کا مدخول حقیقتہ یہ نہیں بلکہ جملہ محذوفہ ہے تقدیر کلام یوں ہے السنا بمجزنیین نعم فما نحن بمیتین یعنی استفہام کا تعلق پہلے جملے سے ہے جو مستفہم باستفہام تقریر ہے اور دوسرا جملہ محل استفہام نہیں بلکہ نتیجہ ہے اس ترکیب کے بعد ہمارے ترجمہ پر نظر غائر ڈالینگے تو صحیح پائیں گے۔ منہ (