إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ
تاہم اگر کوئی شیطان کوئی بات لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب [٦] کرتا ہے۔
ہاں ان میں سے کوئی کسی بات کو اچک لے تو دھکتا ہوا انگار اس کے پیچھے لگ ! جاتا ہے ) اس آیت پر ایک مشہور اعتراض وارد ہوتا ہے جس کا ذکر تفسیر کبیر میں بھی ہے۔ کہ یہ رجوم جو شیاطین کو لگتے ہیں۔ کونسے ستارے ہیں؟ یہی جو دیکھنے میں آرہے ہیں؟ یا جو برسات کے دنوں میں ٹوٹتے نظر آتے ہیں؟ قسم اول ہے تو ان کی تعداد میں کمی آنی چاہئے۔ قسم دوم ہے تو خاص برسات بالخصوص اگست و ستمبر کے مہینوں میں کیوں زیادہ ہوتے ہیں؟ خاکسار کی ناقص تحقیق میں قسم اول مراد ہے کیونکہ جن ستاروں کو آسمان کی زینت فرمایا اونہی کو شیاطین کے لئے رجوم بتلایا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانی ستارے ہی شیاطین کے لئے غرض اس قسم کے انتظامات قدرتی ہیں رجوم (دھتکار) ہیں۔ اللہ نے ان میں تاثیر ایسی رکھی ہے کہ شیاطین کو ملاء اعلیٰ کے قرب سے مانع ہے۔ جیسے آگ میں تاثیر ہے کہ انسان کو اپنے قرب سے مانع ہوتی ہے۔ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان میں بھی یہ توجیہ ملتی ہے۔ اللہ اعلم (منہ)