أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے ہم رنگا رنگ [٣٢] کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی سفید سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔
(27۔39) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایسابڑا حاکم اور مالک ہے کہ اوپر کی طرف سے پانی اتارتا ہے پھر وہ اس پانی کے ساتھ مختلف رنگوں کے پھل پیدا کرتا ہے اور پہاڑوں میں جو بعض ٹکڑے سفید اور بعض سرخ مختلف رنگ کے ہیں اور بعض بہت سیاہ کالے یہ بھی اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں اسی طرح آدمیوں جانوروں اور چارپائوں میں بعض مختلف رنگ کے ہیں ان واقعات کا جاننا ایک بڑا علم ہے جس کو آج کل کے لوگ سائنس یا فلسفہ کہتے ہیں بہت سے لوگ ایسے واقعات کے جاننے والوں کو عالم کہتے ہیں ان کے نزدیک سوائے سائنس دان کے کوئی عالم نہیں ہوسکتا مگر الہامی نوشتوں کی اصطلاح یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں پس یہی (خوف اللہ) علامت ہے علماء کی ورنہ صرف کتابی علم بجوئے نیرزد مختصر یہ کہ جب تک علم کے مطابق عمل نہ ہو وہ علم نہیں جہل ہے۔ جس علم سے یہ سکہ دل پر بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب بڑا بخشنے والا ہے وہی علم ہے اور نہیں اسی لئے الہامی کتابوں میں یہ عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی الہام کی ہوئی کتاب کو پڑھتے ہیں مگر نہ صرف طوطے کی طرح پڑھتے ہیں بلکہ عمدہ طرح سے تدبر و تفکر کرتے ہیں اور نماز وقت پر ادا کرتے ہیں اور ہمارے (اللہ کے) دئیے میں سے حسب موقعہ پوشیدہ اور ظاہر خرچ بھی کرتے ہیں بے شک یہی لوگ ایک بری تجارت کی توقع رکھتے ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ پائیں گے غرض یہ کہ جو لوگ اللہ کی الہامی کتاب کو ہر حال میں اپنارہبر جانتے ہیں گو سائنس اور فلسفہ میں اعلیٰ لیاقت بھی رکھتے ہوں مگر مذہبی ہدایت الہامی کتاب ہی سے حاصل کرتے ہیں عملی پہلو میں بھی ضعیف نہیں بلکہ جسمانی عبادت (نماز) کے علاوہ مالی عبادت بلکہ صدقہ خیرات بھی حسب حیثیت اور حسب موقعہ کرتے رہتے ہیں پس یہی لوگ الہامی نوشتوں کی اصطلاح میں علماء ہیں اور یہی لوگ بڑے تاجر ہیں جو ایک کے کئی ایک کریں گے۔ نتیجہ ان کی محنت اور تجارت کا یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اعمال کے بدلے پورے دے گا اور محض اپنے فضل سے زیادہ بھی عنایت کرے گا کیونکہ وہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے اس مضمون میں جو الہامی کتاب پڑھنے کا ذکر آیا ہے تم جانتے ہو یہ کونسی کتاب ہے اور کون سے رسول کا الہام ہے سنو ! ہم ہی بتلاتے ہیں جو کتاب ہم (اللہ) نے اے نبی ! تیری طرف وحی کی ہے پس اس زمانے میں وہی سچی کتاب ہے جو کتاب توریت انجیل کے نام کی اس کے سامنے ہے اس کے مضمون اور الہام کی تصدیق کرتی ہے گو اس میں الہامی احکام کے علاوہ اور بھی بہت کچھ خلط ملط ہورہا ہے مگر چونکہ اصل میں اس کا نزول الہامی ہے اس لئے قرآن مجید ان کی تصدیق کرتا ہے یہ واہمہ لوگوں کو ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ کبھی توریت اتاری کبھی انجیل تو کبھی قرآن سو ان لوگوں کو جاننا چاہئے کہ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے خبردار اور دیکھنے والا ہے جو جس زمانے کی ضرورت اور مصلحت ہوتی ہے اس کے مطابق نئی طاقت کے ساتھ احکام نازل کرتا ہے پہلی کتابوں کے بعد پھر ہم نے آسمانی کتاب کے وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا یعنی مسلمانوں کو جو بعد میں تین حصوں میں منقسم ہوئے بعض ان میں کے اپنے حق میں ظالم اور مضرت رساں ہونگے جن کے نیک اعمال بد اعمال کے مقابلہ میں کم ہونگے بعض ان میں کے میانہ رو ہوں گے جن کے اعمال قریب قریب برابر ہوں گے بعض ان میں اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہونگے جیسے اصحاب رسول اور ان کے پیرو جس زمانے میں ہوں غرض یہ تینوں قسم کے لوگ بلحاظ ایمان اللہ کے ہاں فی الجملہ برگزیدہ ہیں یہی اللہ کا بڑا فضل ہے جس کا عوض ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہونگے۔ ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی ان کو پہنائے جائیں گے اور ان باغوں میں ان کا لباس ریشمی ہوگا اور وہ کہیں گے سب قسم کی تعریفیں اللہ کو ہیں جس نے ہم سے ہر قسم کے تفکرات دور کردئیے لہٰذا اب ہم بے فکر اور بے غم ہیں بے شک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا قدردان ہے جس نے ہماری ناقص پونجی (معمولی عبادت) کو قبول فرما کر محض اپنے فضل سے ہم کو ٹھیرنے کے مقام جنت میں اتارا ہے جس میں ہم کو کسی طرح کی نہ تکلیف ہے نہ تکان اور نہ ضعف اور ان کے مقابلے میں جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ ان پر موت کا حکم ہوگا کہ مرجائیں اور نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اسی طرح ہم ہر ایک ناشکرے کافر کو سزا دیں گے وہ اس دوزخ میں چیخیں مارتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو ہم کو اس دوزخ سے نکال لے تو ہم اپنی بداعمالی چھوڑ کر نیک عمل کرینگے جواب ملیگا کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی؟ جس میں کوئی نصیحت پانا چاہتا تو پاسکتا تھا اور تمہارے پاس سمجھانے والے بھی آئے تھے مگر تم نے کسی کی ایک نہ سنی پس اب تم اپنے کئے کا مزہ چکھو ظالموں نافرمانوں کے لئے کوئی مددگار نہیں تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ نے تمہارے حق میں فیصلہ غلط کیا ہے یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کے مخفیات کو جاننے والا ہے بلکہ وہ سینوں کے بھیدوں سے واقف ہے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تمہارے اعمال کی براہ راست اس کو خبر نہ ہو اور مخبروں کی رپورٹ سے غلطی کھا جائے سنو ! اسی نے تو تم لوگوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا دنیا کی چیزوں پر اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے ان چیزوں پر تم کو بھی اختیار استعمال دیا مگر تم لوگوں نے اس خلافت کی قدر نہ کی اور اس مضمون سے بالکل غافل ہوگئے کہ گمہاز درمندی سکن برکہاں کہ بریک نمط مے نماند جہاں تم نے اس خلافت کے عطا کرنے والے ہی سے انکار کیا جس کا لازمی نتیجہ تمہارے حق میں مضر ہونا تھا سو ہوا پس جس نے اللہ اور اللہ کے احکام سے انکار کیا تو اس کے کفر اور انکار کا وبال اسی کی جان پر ہے اور کافروں کے کفر سے انکے پروردگار کے ہاں غضب ہی بڑھتا ہے اور کفر سے انکا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے