قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ
(اے نبی!) آپ ان سے کہئے کہ : جن کو تم اللہ کے سوا (الٰہ) سمجھ رہے ہو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کے موجودات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے، نہ ہی ان موجودات میں ان کی کچھ شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
(22۔30) بغور دیکھا جائے تو جو جھگڑا اور تنازع اس وقت مومنوں اور کافروں میں تھا وہی اب اس زمانے میں بھی ہے تمہارے مخاطب اسی لئے تم سے چڑتے ہیں کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہو اسی سے اپنی تمام حاجات مانگتے ہو اسی کو حاجت روا جانتے ہو اور یہ لوگ متعدد الہٰوؤں کو مانتے ہیں متعدد معبودوں سے دعائیں مانگتے ہیں ہر ایک کہ ذمہ سے التجا کرتے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان کو سمجھانے کے لیے کہہ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا کچھ سمجھے بیٹھے ہو انکو ذرہ پکارو تو سہی دیکھیں وہ تمہاری کچھ مشکل کشائی کرسکتے ہیں وہ بیچارے کیا کریں گے وہ نہ تو آسمانوں میں ذرہ جتنا اختیار رکھتے ہیں نہ زمینوں میں نہ ان دونوں (آسمان و زمین) میں ان کو کسی قسم کا ساجھا ہے اور نہ ان تمہارے معبودوں میں سے جن کو تم لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہو اللہ کا کوئی مددگار اور معین ہے۔ بلکہ یہاں تک بے اختیار ہیں کہ اللہ کے پاس ان کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی مگر اسی کو جس کے لئے وہ حقیقی مالک اللہ ذوالجلال اجازت بخشے جن لوگوں (نبیوں ولیوں اور فرشتوں) کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو اللہ کے سامنے یہاں تک تن بتقدیر اور سر بسجود ہیں کہ اللہ کی ہیبت سے جو ان کے دلوں پر وارد ہوتی ہے بیہوش ہوجاتے ہیں اور جب ان کے دلوں سے ہیبت دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ یعنی بذریعہ کشف والہام کیا ارشاد ہوا ہے؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ جو فرمایا ہے بالکل ٹھیک اور سچ فرمایا ہے اور کیوں نہ وہ حق بات فرمائے وہ تو بڑا بلند بڑی کبریائی والا ہے اس کی بلندی شان اس امر کی مقتضی ہے کہ جو فرمائے وہ ٹھیک فرمائے۔ اللہ کی عظمت شان کے مقابلہ میں ان لوگوں کی یہ کیفیت ہے اور ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ انہی کو نافع اور رضا وجان کر دعائیں مانگتے ہیں اے نبی ! تو ان کو سمجھانے کی غرض سے کہہ کہ بتلائو تو کون تم کو آسمانوں یعنی اوپر کی جانب سے بذریعہ پانی کے اور زمین سے بذریعہ روئیدگی کے رزق دیتا ہے؟ یہ خود ہی مانتے ہیں کہ اللہ ہی دیتا ہے۔ اس لئے تو بھی کہہ کہ ہمارا تمہارا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ ہی رزق دیتا ہے تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ ہم جو صرف اسی رازق کو پوجتے ہیں اور اسی اکیلے سے دعائیں مانگتے ہیں یا تم جو اس کے ساتھ اوروں کو بھی ملاتے ہو ہم اور تم دونوں فریقوں میں سے ایک فریق کے لوگ تو ضرور ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں کیونکہ اجتماع نقیضین تو ہوگا نہیں پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ خالص توحید والے بھی اور تم محض شرک والے بھی اللہ کے ہاں ایک نظر سے دیکھے جائو مختلف اجناس مختلف نتائج دیا کرتی ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں فریق باوجود اختلاف شدید کے نتیجہ میں متفق ہوں؟ ہرگز نہیں اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہماری مخالفت اور قرآن کی تکذیب کرنے میں جلدی نہ کرو شاید تمہارا ہی قصور ہو جس کا نتیجہ تمہارے حق میں برا ہو دانا کو چاہئے کہ آئندہ کی فکر کرے یہ نہیں کہ جو منہ پر آئے کہہ دے اور جو دل میں آئے کر گذرے (عیسائی لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نسبت مختلف خیالات رکھتے ہیں نافع ضار تو سب مانتے ہیں لیکن اس نفع اور ضرر کی وجوہات الگ الگ ہیں کبھی تو کہتے ہیں کہ مسیح خود اللہ ہے۔ پادری فنڈر لکھتا ہے :۔ ” پہاڑ پر حضرت موسیٰ کو پکارنے والا مسیح ہی تھا“ (مفتاح الاسرار صفحہ ٣٨) فہرست بائیبل کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ ” اللہ نے ہمارے لئے جسم اختیار کیا۔“ (کتاب کلام اللہ دیباچہ ص ٤) اس کے علاوہ کبھی یہ بھی اظہار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح ہمارا شفیع اور سفارشی ہے چنانچہ ان کا کلمہ طیبہ ہے اَشْھَدُ اَلَّا شَفِیْعَ اِلَّا الْمَسِیْحُ یعنی ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیح کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے۔ قرآن مجید نے ان دونو خیالوں کی تردید کی ہے پہلے خیال کی تردید تو اس طرح کی کہ مسیح اور ان کے سوا تمام ماسوی اللہ کی ذاتی ملکیت کی نفی کردی کہ لَاَیَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ دوسرے خیال کی نفی کرنے کو فرمایا کہ کسی کی سفارش اس وقت ہی کام دے گی کہ اللہ کے ہاں سے اجازت بھی ملے۔ جب سفارش بھی حقیقتاً اللہ ہی کے اختیار میں ہے تو پھر اس مطلب (شفاعت) کے لئے بھی اللہ ہی کو راضی کرنا چاہیے تاکہ وہ مالک اجازت فرمائے اور شفاعت قبول بھی کرے نہ کہ اسی شفیع سے وہ معاملہ کرنے لگ جائے جو اصل بخشنہار سے کرنا چاہیے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسائیوں کا خیال دربارۂ حضرت مسیح ہر دو وجہوں سے غلط ہے۔ تنبیہ : مسلمانوں کو بھی اس آیت پر غور کرنا چاہیے جو بزرگوں سے منتیں مانگتے اور دعائیں کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا منع ہے تو وہ کہتے ہیں ہم ان سے نہیں مانگتے بلکہ ان کے اللہ کی جناب میں سفارشی بناتے ہیں حالانکہ ان کے الفاظ یہ ہوتے ؎ شیئاللّٰہ چوں گدائے مستمند المدد خواہم زخواجۂ نقشبند خذیدی یاشاہ جیلاں خذیدی شیئاللّٰہ انت نُوْر احمدٖ اس دعا کا مطلب بالکل صاف ہے کہ قائل اپنے مخاطب بزرگ سے کہتا ہے کہ :۔ اے خواجہ نقشبند ! میں آپ سے مدد چاہتا ہوں مجھ کو اللہ کے لئے کچھ دیجئے میں محتاج ہوں نظر عنایت کیجئے۔“ ” اے پیر جیلانی ! میری دستگیری کیجئے اللہ کے لئے کچھ دیجئے۔“ یہ ترجمہ اور الفاظ ہی صاف بتلا رہے ہیں کہ متکلم کے نزدیک مخاطب بزرگ فائدہ رسان ہیں ان کو دفع بلا اور ایصال خیر میں قدرت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کی بابت فرمایا لایَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ۔ اگر ان کو شفیع سمجھ کر پکاریں تو بھی درست نہیں۔ کیونکہ سفارش اور شفاعت کسی انسان کے اختیار میں نہیں۔ پس اس وجہ سے بھی کسی مخلوق کو پکارتا یا اڑے وقت میں اس سے استمداد اور استعانت حاصل کرنا ہرگز جائز نہیں حضرت شیخ فرید الدین عطار مرحوم نے کیا اچھا فرمایا ہے ؎ دربلا یاری مخواہ از ہیچکس زانکہ بنود جز اللہ فریاد رس غیر حق را ہر کہ خواند اے پسر کیست در دنیا ازو مگر اہ تر اسی مضمون کو اردو میں یوں بیان کیا گیا ہے ؎ مسلمانو ! ذرا سوچو تو دل میں پھنسے ہو کس طرح تم آب و گل میں بہت مدت کے سوتے اب تو جاگو اللہ کے ہوتے بندوں سے نہ مانگو) تو اے نبی ! یہ بھی کہہ دے کہ ہم تو تم لوگوں کو محض خیر خواہی سے سمجھاتے ہیں ورنہ تم ہمارے گناہوں سے نہیں پوچھے جائو گے اور نہ ہم کو تمہارے اعمال سے سوال ہوگا پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم تم لوگوں کو اتنا سمجھاتے ہیں اور خود تمہاری تکلیفیں اٹھاتے ہیں صرف ہمدردی سے تو اے نبی ! یہ بھی کہہ کہ تم یہ نہ سمجھو کہ جس طرح تم لوگ دنیا میں ہم سے بدکتے ہو الگ رہتے ہو اسی طرح آخرت میں بھی ہم تم الگ ہی رہیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم کو ایک جاجمع کر کے ہمارے اور تمہارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا جس میں کسی کی رو رعایت نہ ہوگی کیونکہ وہ بڑا ٹھیک فصلہ کرنے والا اور بڑے علم والا ہے اس کو کسی کے کہنے سنانے کی حاجت نہیں پس بہتر ہے کہ تم ابھی سے ایسی ناجائز حرکات سے باز آجائو ورنہ پچھتائو گے اور پچھتانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اے نبی ! تو بغرض تفہیم ایک دفعہ پھر کہہ دے کہ جن لوگوں کو تم نے اس اللہ کے ساتھ شریک بنا کر ملا رکھا ہے ذرہ مجھے بھی تو دکھائو کہ وہ کون ہیں؟ انہوں نے کیا کیا کام کئے ہیں؟ کیا کیا بنایا ہے؟ کیونکہ یہ مثل مشہور کہ ” درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے “۔ ہرگز نہیں دکھا سکو گے کوئی ہو تو دکھائو جب کوئی نہیں تو دکھائو کیا؟ بلکہ وہی اللہ اکیلا ہی سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے اس کے مقابلہ کا کوئی نہیں اس لئے اس کا ہمسر کسی کو بنانا یا سمجھنا سخت درجے کا گناہ یہ اسی گناہ کے سمجھانے کے لئے اے نبی ! ہم نے تجھ کو تمام انسانوں کے لئے نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تیرا یہ منصب ہے کہ نیک کاموں پر لوگوں کو خوشخبری سنا کہ تم کو اچھا بدلہ ملے گا اور برے کاموں پر عذاب کا ڈر سنا کہ انجام برا ہوگا لیکن بہت سے لوگ جانتے نہیں کہ نبی کا منصب کیا ہے وہ نبی کو اللہ کا کوئی مشیر خاص یا (صوبہ کا) بااختیار حاکم سمجھتے ہیں اس لئے اس سے ایسے ایسے سوال اور دعائیں کرتے ہیں جو اس کے منصب سے اعلی ہوتی ہیں کوئی اس کو غیب دان جان کر حاضر و ناظر سمجھتا ہے کوئی اس کو وائیسرائے ہند کی طرح اپنے کام میں بااختیار جان کر اپنی حاجت طلب کرتا ہے چنانچہ ان مشرکوں کا سوال بھی اسی قسم سے ہے جو کہتے ہیں کہ مسلمانو ! اگر سچے ہو تو بتلائو یہ وعدہ جو تم قیامت کا سنا رہے ہو کب ہوگا؟ یہ سوال بیا اسی غلط اصول پر مبنی ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ لوگ نبی کو غیب کلی کا عالم جانتے ہیں اسی لئے ایسے سوالات کرتے ہیں پس تو اے نبی ! ان سے کہہ کہ تمہارے لئے ایک دن کی میعاد مقرر ہے جس سے نہ ایک ساعت تم پیچھے ہٹو گے نہ آگے بڑھ سکوگے تاریخ کا علم کسی کو نہیں دیا گیا لہذا یہ سوال غلط ہے