سورة سبأ - آیت 18

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

ہم نے ان کی بستی اور اس بستی کے درمیان جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، کھلے راستہ پر کئی بستیاں آباد کردی تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کردی تھیں کہ ان میں رات دن بلاخوف و خطر امن سے [٢٩] سفر کرو۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(18۔21) اسی طرح دنیا میں کئی ایک قومیں ہوئیں قوم سبا کا ذکر بھی ان لوگوں نے سنا ہوگا جو یمن میں رہتی تھی ان کے خود اپنے ہی گھروں میں بہت بڑی الٰہی قدرت کی ایک نشانی تھی کہ ان کی بستیوں میں دائیں بائیں دو باغ تھے اس وقت کے کسی نبی نے ان سے کہا تھا کہ اپنے پروردگار کا دیا ہوا کھائو اور اس کا شکر کرو دیکھو تمہارا ملک کیسا عمدہ پیداوار دینے والا ہے اور پروردگار بخشنہار اس پر بھی انہوں نے تعمیل ارشاد سے روگردانی کی پس ہم (اللہ) نے ان پر بڑے زور کا سیلاب بھیجا جس سے ان کا تمام علاقہ برباد ہوگیا اور ہم نے ان کے دو طرف باغوں کے بدلے میں ان کو دوباغ ایسے دئیے جنہیں سخت بدمزہ پھل جھائو اور کسی قدر بے حقیقت بیر تھے جیسا کہ ویران جنگلوں میں ایسی چیزیں ہوا کرتی ہیں غرض کہ بجائے شاداب باغات کے ان کے ملک کو اجڑا اور ویران کردیا یہ انکی ناشکری کا بدلہ ہم نے ان کو دیا اور اس قسم کا بدلہ ہم ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں یعنی جو لوگ اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے ان کی نعمتیں چند روزہ رہتی ہیں آخر کار تباہ اور ویران ہوجاتے ہیں ہم نے ان پر یہ احسان بھی کیا تھا کہ ان قوم سبا کے دارالحکومت اور باقی ملک کے دیگر بابرکت اور آباد مقامات کے درمیان بھی بڑی بڑی بارونق بستیاں بنائی تھیں اور ان میں سیر وسیاحت کا اندازہ لگایا تھا بڑے بڑے ضلعوں کی سڑکوں پر چلنے والوں کو ہر ایک منزل پر کوئی نہ کوئی آبادی مل سکتی تھی جس سے مسافروں کو راحت اور آرام ملتا تھا ہم نے نبی کی معرفت کہا تھا کہ ان مقامات میں شب وروز اس امن و امان سے سیر کیا کرو کیونکہ آبادی کی وجہ سے کسی قسم کا خطرہ نہیں پھر وہ اس نعمت کے شکر گذار نہ ہوئے بلکہ الٹے یوں بولے کہ اے ہمارے اللہ ہمارے سفر کا راستہ دور کر دے یعنی ان میں سے متکبر مزاج امراء جو تمول اور دولت کے نشہ میں مست تھے ان کی دلی خواہش ہوئی کہ یہ منزلیں جو قریب قریب ہیں ایسا ہو کہ دور دور ہوجائیں جیسے کہ آجکل پسنجر گاڑیوں پر جو عموما ہر ایک سٹیشن پر ٹھیرتی ہیں سفر کرنے سے نازک مزاج سیاحوں کی طبیعت گھبراتی ہے اور چاہتے ہیں کہ ہونہو ڈاک ہی پر سفر کریں جو کئی کئی سٹیشنوں کو چھوڑ جاتی ہے اسی طرح اس زمانے کے تنعم پسندوں کے دل معمولی منزلوں پر ٹھیرنے سے گھبرانے لگے تو انہوں نے بزبان حال یا بزبان قال یہ خواہش ظاہر کی اور اپنی اس سرکشی کی وجہ سے انہوں نے اپنے نفسوں پر سخت سخت ظلم کئے پھر ہم نے بھی ان کو یہ سزا دی کہ بس انکو کہانیاں بنا دیا یعنی ان کا ستیاناس کردیا ایسا کہ ایک پرانی مثال انہی پر صادق آئی ؎ حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سراٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں ہر ایک صبار یعنی تکلیفوں پر صبر کرنے والے اور الٰہی نعمتوں پر شکر کرنے والے کے لئے بہت سے نشان ہیں کہ وہ اس واقعہ سے کم ازکم اس نکتہ کو پا سکتے ہیں کہ دنیا کا نشیب و فراز سب اللہ ذوالجلال کے قبضے میں ہے اگر کسی کو نعمت ملتی ہے تو اسی کے حکم سے اگر زحمت پہنچتی ہے تو اسی کے ارشاد سے اس لئے وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں ؎ پناہ بلندی و پستی توئی ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی مگر ان (قوم سبا) کے لوگوں نے اپنی حرکات سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی نعمتوں کو اللہ کی مہربانی کا نتیجہ نہ جانتے تھے بلکہ اپنی لیاقت پر بھروسہ اور غرور کرتے تھے اسی لئے تباہ ہوئے اور شیطان نے بھی اپنا گمان ان کی نسبت صحیح پایا جو اس نے پہلے ہی سمجھا اور کہا تھا کہ نبی آدم میں سے بہت کم شکر گذار ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا پس بجز چند ایمانداروں کے باقی سب لوگ اس شیطان کے پیرو ہوگئے حالانکہ شیطان کا ان پر کوئی زور اور غلبہ نہ تھا لیکن ہاں اس کا نتیجہ ! یہ ہوا کہ ہم نے آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور بے ایمانوں میں تمیز کردی یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے تھے ان کو شک کرنیوالے لوگوں سے بایں طور ممتاز کیا کہ ایمانداروں کو نجات دی اور بے ایمانوں کو تباہ کیا کیونکہ تیرا پروردگار جو تمام دنیا کا حقیقی پالن ہار ہے ہر چیز پر نگران حال ہے