وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان [٢٤] کے درمیان رہے۔ پھر ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا کہ وہ ظالم تھے۔
(14۔35) ہم نے حضرت نوح کو بھی یہی پیغام اور اطلاع دے کر اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا پھر وہ ان میں پچاس کم ہزار سال یعنی ساڑھے نو سو سال پوری وعظ کہتا رہا مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی برابر مخالفت ہی پر تلے رہے پس آخرکار جب ان کا جام لبریز ہوگیا تو حکم الٰہی سے ان کو طوفان نے آلیا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے پھر ہم نے اس نوح کو اور ساتھ بیڑی میں بیٹھنے والوں کو نجات دی اور اس بیڑی کو بوجہ ان کی نجات کے تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنای اور اسی طرح ابراہیم کو رسول کر کے بھیجا اس کی زندگی کے واقعات بہت عجیب و غریب ہیں خصوصا وہ وقت جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کی بے فرمانی کرنے سے ڈرو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو تو سمجھو تم اتنا نہیں سوچتے کہ اللہ کے سوا صرف بتوں اور مصنوعی معبودوں کی عبادت کرتے ہو اور اپنی طفل تسلی کے لئے محض جھوٹ موٹ کی حکایات اور زٹلیات گھڑتے ہو سنو ! میں تم کو ایک قابل قدر بات بتاؤں معبود وہ ہونا چاہئے جو ہمارا خالق ہو اور ہم کو رزق دیتا ہو مگر جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تو تمہارے خالق نہیں اس لئے تمہارے لئے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں پس تم ان سے کیا امید وبیم رکھتے ہو اللہ کے ہاں سے رزق مانگو جو تم کو دینے پر قادر ہے اور اس کی عبادت کرو اور شکر اس کا بجالاؤ اور دل میں اس بات کو جما رکھو کہ اسی کی طرف تم کو پھرنا ہے بس اس حاضری کی تیاری کرو اور اگر تم تکذیب کرو گے اور نہ ماننے ہی پر بضد مصر رہو گے تو یاد رکھو کہ اس کا وبال تم ہی پر ہوگا تم سے پہلے بھی کئی ایک جماعتوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی جس کا بد انجام انہی کے حق میں برا ہوا اور رسولوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا کیونکہ ہر ایک رسول کے ذمے بس واضح کرکے پہنچانا ہوتا ہے اسی لئے امتوں کے انکار پر رسولوں کو کوئی مواخذہ نہیں مانیں یا مانیں اپنا سر کھائیں کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خلقت کو پیدا کرتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے یعنی فنا کردیتا ہے بے شک یہ بات اللہ کے نزدیک آسان ہے‘ بنا کر توڑ دینا اسے کچھ بھی مشکل نہیں سمجھانے کے لئے اے نبی ! تو ان سے یہ بھی کہہ کہ ذرہ ملک میں تم سیر کرو پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کس کس طرح مخلوق کو پیدا کیا ہے صحرائی مخلوق کو دیکھو پھر دریائی پر نظر کرو بغور دیکھو تو اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد ایک نئی خلقت پیدا کرے گا جو دار آخرت میں ہوگی جس سے عرب کے لوگ منکر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے یہاں تک کہ جسے چاہے عذاب کرسکتا ہے اور جسے چاہے رحم فرما سکتا ہے یعنی وہ کسی امیر وزیر کی رائے کا پابند نہیں اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہاں نیک و بد کا بدلہ تم کو ملے گا پس تم اپنا نفع نقصان سوچ لو اور بھلائی برائی کے لئے تیار ہو کر چلو خوب جان رکھو کہ تم زمین و آسمان میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے کہ وہ تم کو پکڑنا چاہے اور تم نہ پکڑے جاؤ اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی والی اور کوئی مددگار نہیں ہے اور نہ ہوگا اس لئے کہ جو لوگ اللہ کے حکموں اور اس کی ملاقات سے منکر ہیں یا مان کر تیاری نہیں کرتے وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہیں اور انہی کو درد ناک عذاب ہوگا یہ تو تھا ضمنی مکالمہ جو بوجہ مناسبت کے ذکر میں آگیا پس اب سنئے اصل قصہ کہ ابراہیم کی قوم سے آخر یہی جواب بن سکا کہ انہوں نے کہا اس ابراہیم کو قتل کر دو‘ یا آگ میں جلا دو پھر بعد غوروفکر انہوں نے آگ میں جلانا زیادہ مفید جان کر ابراہیم سلام اللہ علیہ کو آگ میں تو ڈلا پر اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچایا بے شک اس مذکور میں ایمان دار لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہے ابراہیم سلام اللہ علیہ آگ سے نکلا تو بدستور وعظ و نصیحت میں سرگرم رہا اور اس نے کہا کہ تم نے صرف آپس کی دنیاوی محبت سے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے ایک دوسرے کی لاگ لپیٹ سے چلے جارہے ہو اس کی سزا تم کو ضرور ملے گی پھر قیامت کے روز تم میں کا ایک دوسرے سے انکاری ہوگا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور تمہارا وہاں پر کوئی مددگار نہ ہوگا پس یہ تقریر ابراہیم کی سن کر لوط جو اس کا حقیقی بھتیجا تھا اس پر ایمان لایا اور ابراہیم جب کافروں سے بہت تنگ آیا تو اس نے کہا میں اپنا وطن چھوڑ کر اپنے پروردگار کی طرف جاتاہوں یعنی کسی ایسی جگہ جاتا ہوں کہ بافراغت اس کی عبادت اور تبلیغ کرسکوں بے شک وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے وہ اپنی حکمت کاملہ سے میرے لئے کوئی ایسی صورت پیدا کر دیگا کہ میں بآسائیش عمر گذار سکوں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہم نے اس کو کافروں کی تکلیف سے بچایا اور جب وہ وطن چھوڑ کر ہجرت کر گیا تو ہم نے اس کو اسمعیل اور اسحاق بیٹے اور یعقوب پوتا دئیے اس خاندان رسالت اور دوران نبوت کا مورث اعلیٰ یہی ابراہیم سلام اللہ علیہ تھا کیونکہ ہم نے اس کو برگزیدہ کیا تھا اور ہم نے اس کی نسل میں نبوت اور کتاب کی ہدایت جاری کی تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ حصرت ابراہیم کی نسل سے کئی ایک نبی پیدا ہوئے تھے اور ہم نے اس کو دنیا میں بڑا اجر دیا تھا اور یہ اعلان کردیا تھا کہ آخرت میں بھی وہ ہمارے نیک بندوں کی جماعت میں ہوگا اور لوط کو جو ابراہیم پر ایمان لایا تھا ہم نے رسول کر کے بھیجا اس کی زندگی کے واقعات بھی تمہارے لئے عجیب سبق آموز ہیں کیونکہ اس کے مخاطبین نہایت ہی بد اخلاقی میں منہمک تھے یعنی علاوہ شرک وکفر و بت پرستی کے وہ خلاف وضع فطری (لونڈوں سے لواطت) کرتے تھے اس لئے حضرت لوط کو ان کے سمجھانے میں بڑی دقت ہوئی خصوصا جب اسنے اپنی قوم سے کہا کہ تم بڑی بے حیائی کا کام کرتے ہو ایسا بے حیائی کا کام ہے کہ تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا تم مردوں یعنی لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو اور قدرتی راستہ جو عورت مرد کے ملاپ کا ہے قطع کرتے ہو اور تم اپنی مجالس میں ناجائز حرکات کرتے ہو مخول ٹھٹھا ہتک ایک دوسرے کی آبرو ریزی تم میں ایک معمولی بات ہے پس یہ نصیحت سن کر اس کی قوم کا بس یہی جواب ہوا کہ انہوں نے کہا کہ بڑے میاں ! ہم تو تیری ایسی ویسی باتیں سننے کے نہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ اور ہمیں ہلاک اور تباہ کر دے بس تیری سچائی کا ثبوت خود ہی ہوجائے گا اور تمام دنیا کے لوگ جان جائیں گے کہ فلاں نبی نے اپنی قوم کو تباہ کروادیاجاؤ آئیندہ کو نہ ہمارا دماغ پچی کیجئیو نہ اپنا سر کھپائیو حضرت لوط اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے یہ سن کر کہا کہ اے میرے پروردگار ! مفسدوں کی قوم پر میری مدد کر حسب درخواست کفار کے صاف لفظوں میں عذاب کی درخواست نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ پر کسی کا جبر نہیں وہ جس طریق سے چاہے گا مدد کریگا مفسدوں کو تباہ کرنے سے یا ہدایت کرنے سے اس لئے اپنا مطلب عرض کردیا اس کے اسباب کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا مگر چونکہ اللہ کے علم میں بھی یہی تھا کہ اس قوم کی ہلاکت ہو اور وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں اس لیے فرشتے ہلاکت کے آن پہنچے مگر جب ہمارے فرستادہ فرشتے پہنچے تو پہلے ابراہیم کے پاس بیٹے کی خوش خبری لے کر آئے کہ تیرے گھر بیٹا پیدا ہوگا تو انہوں نے ابراہیم سلام اللہ علیہ کے پوچھنے پر کہا کہ ہم اس لوط کی بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں اسی غرض سے ہم آئے ہیں کیونکہ اس بستی کے رہنے والے ظالم ہیں ابراہیم کی طبیعت میں چونکہ اعلیٰ درجہ کا رحم تھا جھٹ سے اس نے کہا ہیں اس میں تو لوط بھی ہے غرض اس کی یہ تھی کہ چونکہ اس بستی میں لوط ہے اس لئے وہ بستی ہنوز قابل ہلاکت نہیں کیونکہ ہلاکت میں نبی کی شرکت نہیں ہوتی فرشتوں نے کہا جو جو اس میں ہے ہم اس کو خوب جانتے ہیں ہم بحکم الٰہی اس لوط کو اور اس کے تعلقداروں کو بچا لیں گے کیونکہ بحکم الٰہی ان کو بتلادیں گے کہ تم یہاں سے نکل جاؤ بس نکلنے کی وجہ سے وہ بچ جائیں گے مگر اس لوط کی عورت پیچھے رہنے والوں میں رہے گی کیونکہ وہ لوط پر ایمان نہیں لائی بلکہ وہ بدستور اپنی برادری میں کافروں کے ساتھ رہے گی خیر یہاں سے چل کر ہمارے فرستادہ فرشتے جب لوط کے پاس آئے تو چونکہ وہ سادہ رو بچوں کی شکل میں تھے حکمت الٰہی اسی کی مقتضی ہوئی کہ ان کو اسی شکل میں بھیجا جائے اور وہ لوگ لواطت کے عادی تھے اس لئے لوط ان کی وجہ سے ناخوش اور دل تنگ ہوا اسے یہ تو معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں کیونکہ اس کو غیب کا علم نہ تھا اسلئے اس نے جو بظاہر ان کی شکل و ہیئت دیکھی تو یہی سمجھا کہ میرے مہمان ہیں ان کی ہتک سے میری ہتک ہے مگر وہاں رنگ ہی کچھ اور تھا آخر کار وہ راز کھل گیا اور لوط کو تسکین ہوئی کیونکہ انہوں نے یعنی فرشتوں نے کہا اے لوط تو خوف نہ کر اور آزردہ خاطر نہ ہو ہم تو اللہ کے فرستادہ فرشتے ہیں اس لئے آئے ہیں کہ تجھے اور تیرے تعلق والوں کو بچائیں لیکن عورت تیری یقینا پیچھے رہنے والوں میں ہے تم لوگوں کو نکال کر ہم اس بستی کے رہنے والوں پر ان کی بدکرداری کی وجہ سے آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سب قوم ہلاک ہوگئی اور عقل مندوں کے لئے ہم (اللہ) نے اس بستی میں ایک کھلی نشانی چھوڑی جس سے دیکھنے والے عبرت پائیں