وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب ہم نے موسیٰ کے امر (رسالت) کا فیصلہ کیا تھا تو آپ (طور کی) غربی جانب [٥٧] موجود نہ تھے۔ اور نہ ہی (اس واقعہ کے) گواہ [٥٨] تھے۔
(44۔50) اے نبی تو اس وقت پہاڑ کی مغربی جانب پر موجود نہ تھا جب ہم نے حضرت موسیٰ کو حکم شرعی سپرد کیا یعنی اس کو نبی بنا کر بھیجا تھا اور نہ تو اس واقعہ پر حاضر تھا اور نہ تو مدین والوں میں ان کو ہمارے احکام پڑھ پڑھ کر سناتا تھا اور نہ تو کوہ طور کی کسی طرف موجود تھا جب ہم نے حضرت موسیٰ کو پکارا (اس آیت کا ترجمہ بہت مشکل معلوم ہوا تین دفعہ تو لیکن سے استدراک ہے پھر اس کا مستثنیٰ منہ سب مفرغ ہے اس لئے میں نے جو ترجمہ کیا ہے اصل کلام یوں سمجھ کر کیا ہے ما کنت من الشاھدین وما کنت ثاویا فی اھل مدین تتلوا علیھم ایاتنا وماکنت بجانب الطور اذنا دینا لکنا انشانا قرونا فتطاول علیہم العمر‘ فارسلناک رحمۃ منا لتنذر قوما الخ اس پر اگر کوئی اعتراض ہو تو میں سن کر غور کروں گا انشاء اللہ اللھم فھمنی القران (منہ) لیکن اصل یہ ہے کہ ہم نے بہت سی قومیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز غفلت کا گذر گیا تو ہم نے محض رحمت سے تجھ کو رسول کر کے بھیجا یعنی تیرا یہ دعویٰ القائی ہے اختراعی نہیں اس لئے کہ نہ تو نے کوئی کتاب ایسی پڑھی ہے جس کو دیکھ کر تو انبیاء خصوصا حضرت موسیٰ کے صحیح صحیح قصے بیان کرتا لیکن یہ سب کچھ تیرے پروردگار کی رحمت سے تجھ کو ملا ہے کہ تو اس قوم کو عذاب سے ڈراوے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ تیرے آنے سے وہ نصیحت پاویں مگر یہ لوگ اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے الجھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس الجھنے کا نتیجہ کیا ہوگا اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ ان کو ان کے بد اعمال کی وجہ سے جو آج سے پہلے یہ کرچکے ہیں ان کوئی مصیبت پہنچے تو کہنے لگیں اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے حکموں کی پیروی کرتے اور ایمان لاتے تو ہم بھی نہ یہ قرآن بھیجتے نہ رسول چونکہ ان کا عذر درصورت نہ آنے ہدایت کے معقول تھا اس لئے ہم نے ان کے پاس سچا رسول محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا پس جب ہمارے ہاں سے ان کے پاس سچ آچکا تو اب جو کوئی عذر نہیں رہا تو کہتے ہیں کیوں نہیں اس کو ایسے معجزات ملے جیسے موسیٰ کو ملے تھے مگر یہ بات بھی ان کی محض دفع الوقتی ہے ورنہ یہ لوگ موسیٰ کو مانتے ہیں اور اس کتاب سے جو موسیٰ کو ملی تھی منکر نہیں ہیں؟ پھر یہ کیسی لغو بات ہے کہ موسیٰ کا نام لے کر قرآن کی تعلیم کو رد کرتے ہیں موسیٰ اور ہارون کی شان میں تو کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادو گر تھے ایک دوسرے کے مددگار بن کر کام چلاتے تھے اور کہتے ہیں کہ ہم ان سب سے منکر ہیں نہ تورات کو مانتے ہیں نہ قران کو ہم ان دونوں سے الگ ہیں نہ ہم اس کو کافی مانتے ہیں نہ اس کو ہدایت سمجھتے ہیں اے نبی ! تو کہہ اگر یہ دونوں کتابیں غلط ہیں تو تم ہی کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے آئی ہوئی لاؤ جو ان دونوں سے ہدایت والی ہو میں اسی کا پیرو ہوں گا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اس کا فیصلہ کرو پس اگر اس صاف سوال کا یہی تجھ کو معقول جواب نہ دیں تو یاد رکھ کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے چلتے ہیں اور جو کوئی بغیر الٰہی ہدایت کے محض اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے چلے اس سے زیادہ کون گمراہ ہے؟ کوئی نہیں کیونکہ نفسانی خواہشات سے تو انسان کو ہمیشہ تباہ کرتی ہیں پھر جو انہی کا غلام ہوجائے اس کی خیر کہاں؟ کچھ شک نہیں کہ اسی لئے اللہ ہی ایسے ظالموں کو ہدایت یعنی توفیق خیر نہیں دیا کرتا جب تک اپنی بد اعمالی سے رجوع نہ کریں ہم نے ان کی خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی رسول بھیجا اور کلام قرآن مجید کو ان کے لئے مفصل بیان کیا تاکہ یہ لوگ نصیحت پاویں خیر نہیں مانتے تو نہ مانیں جھک ماریں کئے کی سزا پائیں گے