فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ
پس (اے نبی) اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہ پکاریئے، ورنہ آپ بھی سزا پانے [١٢٦] والوں میں سے ہوجائیں گے۔
(213۔227) چونکہ یہ قرآن مجید ایسی ایک باعظمت کہ آپ تجھ کو ملی ہے جس کا پہلا سبق خالص توحید ہے پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکاریو یعنی اللہ کے سوا کسی چیز کو مت پکاریو خواہ اس کو مخلوق جان کر بھی پکاروگے تو وہ معبود بن جائے گا پس تم ایسا ہرگز نہ کیجئیو ورنہ تو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا کیونکہ جس طرح سنکھیا ہر کسی کو مضر ہے خواہ کوئی کھائے اسی طرح شرک ہر کسی کو مضر ہے خواہ کوئی کرے جو اس کا مرتکب ہوگا ہلاک ہوگا پس تو ایسا کوئی فعل نہ کیا کر اور اپنے قریبی کنبہ والوں کو بالخصوص سمجھایا کر اور جو ایماندار تیرے تابع ہوئے ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کر ایسا کہ اپنے بازو ان کے سامنے جھکا دیا کر یعنی ان سے بتواضع و بتکریم برتائو کیا کر غرض تو ہر ایک خاص و عام سے وسیع الاخلاقی سے برتائو کیا کر باوجود حسن خلق کے پھر بھی اگر یہ لوگ تیری بے فرمانی کریں یعنی کفار عرب تجھ کو نہ مانیں تو تو کہہ کہ میں تمہارے کاموں اور کرتوتوں سے بیزار ہوں یہ کہہ اور اللہ عزیز غالب اور مہربان پر بھروسہ کر جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنیوالوں یعنی نمازیوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھتا ہے کہ کس عاجزی اور خشوع سے تو اور تیرے ساتھ والے نماز ادا کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہی سب کی سنتا اور سب کی جانتا ہے بس وہ تیری بھی سنتا ہے اور تیرے مخالفوں کو بھی جانتا ہے جو کہتے ہیں کہ اس نبی پر قرآن کو شیاطین لاتے ہیں میں (اللہ) تمہیں بتلائوں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں کن کے دلوں میں خیالات واہیات ڈالتے ہیں وہ شیاطین ہر ایک دروغ گو بد کردار پر اترا کرتے ہیں یعنی جھوٹے اور برے لوگوں کو وہ اپنا مورد نزول بناتے ہیں انہی سے تعلقات پیدا کرتے ہیں اور ان تک سنی سنائی باتیں پہنچاتے ہیں اور بہت سے ان میں سے جھوٹے ہیں ایک تو بات بھی ان کی سنی سنائی ہوتی ہے دوئم وہ خود بھی جھوٹے ہوتے ہیں پس تم اس خبر کی صحت کا اندازہ خود ہی لگا لو اور سنو ! انہی جھوٹوں کے پیرو شاعر ہیں جن کے حق میں ایک قومی شاعر نے کیا اچھا کہا ہے برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے تو وہ محکمہ جس کا قاضی اللہ ہے مقرر جہاں نیک وبد کی جزا ہے گنہگارواں چھوٹ جائیں گے سارے جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے یہی وجہ ہے کہ شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ ہی چلتے ہیں آجکل کے رؤسا اور دولتمندوں کا حال ہی کہ کسی شآعر نے ذرہ سی مدح کردی تو آسمان پر چڑھ گئے اگر ذرہ سے مذمت کی تو تحت الثریٰ تک جاپہنچے حالانکہ یہ بالکل فضول خیال ہے کیا تو نے دیکھا نہیں کہ وہ شعرا لوگ ہر ایک جنگل میں گھوم جاتے ہیں یعنی ہر ایک قسم کے مضامین نباہ دیتے ہیں ان کو کسی کی مدح سے غرض نہیں ہوتی نہ کسی کی مذمت سے مطلب بلکہ اصل غرض ان کی مضمون باندھنے یا روپیہ بٹورنے سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک قسم کا مضمون باندھ لیتے ہیں ہر ایک کی مدح اور ہر ایک کی مذمت کرتے رہتے ہیں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا کر دکھا دینا شاعروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے بقول شخصے ؎ جو شاعر کمر جھوٹ پر باندھتے ہیں رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں اور ایک عیب ان میں سخت یہ ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں کرتے نہیں کہنے کو تو توحید وسنت زہد و تقویٰ وغیرہ سب مضامین لکھ دیتی ہیں پر خود ان پر عامل نہیں ہوئے لیکن یہ بدعادات عموما ان شاعروں میں ہوتی ہیں جو دین مذہب سے گئے گذرے ہیں مگر جو لوگ ایمان دار ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں وہ ایسے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں راست بیانی ہوتی ہے نہوہ از خود کسی شخص کی ناجائز مدح یا مذمت کرتے ہیں اور اگر کسی پر حملہ آور ہوتے ہیں تو بعد مظلوم ہونے کے بدلہ لیتے ہیں ورنہ ابتداء کسی پر ظلم نہیں کرتے پس ایسے ایماندار نیکوکار اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور جو ظالم ہیں مخلوق کو ناحق ستاتے ہیں بلاوجہ کو ستے ہیں ہاتھ اور زبان سے ایذائیں دیتے ہیں وہ خو ہی جان جائیں گے کہ کس چکر میں گھوم رہے ہیں جس وقت ان کے اعمال کا نظارہ سامنے آجائے گا تو جان جائیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؎ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بردید جوز جو