إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور انبیاء کو ناحق قتل [٢٥] کرتے رہے اور ان لوگوں کو بھی جو انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ تو ایسے لوگوں کو دکھ دینے والے عذاب [٢٦] کی خوشخبری سنا دیجئے
(21۔30)۔ بے شک جو لوگ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ناحق ظلم سے قتل کرتے ہیں۔ اور جو ان کے اس فعل قبیح کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ حق بات سے ان کو اس درجہ عداوت ہے کہ جو لوگ اہل علم میں سے انصاف اور حق پسندی کی بات بتلاتے ہیں ان کو بھی قتل کر ڈالتے ہیں یا ان کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادے کہ آخرتمہارا بڑے گھر میں بسیرا ہوگا انہی کے اعمال نیک بھی دونوں جہانوں دنیا وآخرت میں برباد ہوں گے نہ دنیا میں اس پر کوئی اثر مرتب ہوگا اور نہ آخرت میں ان کو بدلہ ملے گا بلکہ بجائے ثواب پانے کے گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا یہ لفظ خوشخبری کے مقابلہ میں محاورہ کا بولا گیا ہے عموماً حکام مجرموں کو جیل خانہ کی نسبت یہ لفظ کہا کرتے ہیں کہ تو بڑے گھر میں جائے گا یوں بھی کہا کرتے ہیں کہ تو سال بھر سرکاری مہمان رہے گا یعنی جیل خانہ میں قید ہوگا۔ ان سے جتنی سختی ہوبے جا نہیں یہ بھی تو جان بوجھ کراندھے بنے ہوئے ہیں کیا تو نے اے مخاطب ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب اللہ کریم سے جو بندوں کی ہدائیت کے لئے وقتاً فوقتاً آیا کرتی ہے اور وہی کتاب کسی زمانہ میں تورات انجیل زبور وغیرہ کے نام سے موسوم ہوئی تھی حصہ ملا تھا وہی لوگ جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف جو حسب مقتضائے زمانہ قرآن کے نام سے ہو کر آئی ہے بلائے جاتے ہیں تاکہ ان میں ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور ان کو مذہبی باتوں میں سچی راہ بتاوے اور یہ بھی سمجھائے کہ جن کو تم نے غلطی سے خدائی حصہ دے رکھا ہے ان کو خدائی میں کوئی حصہ نہیں یا اور امور جو تصفیہ طلب ہوں ان میں تصفیہ کرے تو بجائے تسلیم کرنے کے ایک جماعت جو اپنے آپکو اہل علم کہتے ہیں منہ موڑ کر پھرجاتی ہے اور اس امر کو ہرگز نہیں سوچتے کہ اس بے اعتنائی کا انجام کیا ہوگا۔ ” شان نزول :۔ (الم تر الی الذین اوتوا نصیبا) حضرتﷺ ایک دفعہ یہودیوں کے ایک مدرسہ میں تشریف لے گئے اور ان کو مسلمان ہونے کی بابت کہا دو آدمی ان میں سے بول اٹھے کہ آپ کس دین پر ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریق پر ہوں وہ بولے ابراہیم ( علیہ السلام) تو یہودی تھا۔ آپ نے فرمایا لائو توریت اسی پر فیصلہ رہا۔ یہ سن کر تورات لانے سے وہ انکار کر گئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا) اس آیت کے مضمون میں ہم نے اس مشہور سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے جو عام طور پر عیسائی اور اسلام کی مخالفت میں ان کے ہمنوا آریہ اور دیگر مخالفین کیا کرتے ہیں جس کا مطلب ” عدم ضرورت قرآن ہے۔ تقریر اس سوال کی یوں کی جاتی ہے کہ قرآن نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلی کتابوں کے ذریعہ سے پہلے لوگوں کو دی گئی تھی تو اتنی بڑی مخلوق کو کیوں محروم رکھا علاوہ اس کے کوئی نئی بات قرآن میں نہیں وہی احکام عشرہ تورٰیت کا تکرار اور عام اخلاقی امور ہیں جو ہر مذہب و ملت میں رائج ہیں۔ اور اگر شق اوّل ہے یعنی پہلی کتابوں میں پہلے لوگوں کو وہ تعلیم دی گئی تھی تو قرآن کی کیا ضرورت تھی یہ ہے ان تحریروں کا خلاصہ جن سے ہمارے قدیمی مہربان عیسائیوں نے ورقوں کے ورق اور جزوں کے جز سیاہ کئے ہیں اور ان کے شاگرد (مگر خاص اسلام پر اعتراض کرنے کے فن میں) آریوں نے بھی بڑے زور سے اس پر حواشی چڑھائے ہیں مگر اصل میں یہ اعتراض بالکل قرآن سے ناواقفی پر مبنی ہے۔ مفصل جواب سے پہلے ہم اپنے مخاطبوں سے الزامی طور پر پوچھتے ہیں کہ آپ ہی بتلاویں کہ مسیح نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلے لوگوں کو دی گئی تھی یا نہیں بلکہ ذرہ اوپر چڑھ کر بھی ٹٹولئے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے جو تعلیم بذریعہ تورٰیت بنی اسرائیل کو سنائی وہ پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کسی کی معرفت دی تھی یا نہیں اگر نہیں تو ان کو محروم کیوں رکھا اور اگر دی تھی تو تورٰیت کی کیا حاجت تھی۔ اسی طرح آریوں سے پوچھتے ہیں کہ دید کی تعلیم جن کو بقول یورپین مورخوں کے دو ہزار برس بنے ہوئے گذرے ہیں آریہ تو ویدوں کی عمر ابتدا سے دنیا سے بتاتے ہیں جس کا ثبوت ان کے پاس بجز اس کے کوئی نہیں کہ پنڈت دیانندے رگوید بھاش بھومکا میں لکھا ہے اس مسئلہ کی تحقیق میں کہ آریوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ہمارا ایک مستقل رسالہ ” حدوث وید“ ہے قیمت۔ ١٢ اس کی تعلیم پہلے لوگوں کو بھی یا نہیں اگر نہیں تھی تو محروم کیوں رکھا اور اگر تھی تو اس کی کیا حاجت تھی۔ اس اعتراض سے وہی قوم بچے گی جو کسی پختہ دلیل سے اپنی کتاب کی قدامت ثابت کر دے جو مشکل بلکہ محال ہے۔ خیر اب ہم اصل مضمون پر آتے ہیں قرآن شریف نے کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں ایک نئی چیز لایا ہوں جو تم سے پہلے لوگوں کو نہیں ملی تھی بلکہ صاف لفظوں میں بے ایچ بیچ اس بات کا مقر ہے کہ میں وہی دین الہٰی ہوں جو ہمیشہ سے نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچا ہے اسی کو تازہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں چنانچہ آیات ذیل اس مطلب کے لیے شاہد عدل ہیں۔ شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ و عیسیٰ ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ تمہارے لئے وہی دین جاری کیا ہے جس کی بابت ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو ہدایت کی اور جو تیری طرف کتاب اتاری ہے کہ دین (رضاء مولا) کو قائم رکھو اور جدا جدا متفرق نہ ہو۔ “ ما یقال لک الا ماقد قیل للرسل من قبلک ان ربک لذو مغفرۃ و ذوعقاب الیم (السجدہ ع ٤) تجھے اے محمد (ﷺ) اللہ کی طرف سے وہی بات کہی جاتی ہے جو تجھ سے پہلے رسولوں کو کہی جاتی تھی بیشک تیرا رب بندوں کے حال پر پڑی بخشش کرنے والا ہے اور نافرمانوں ناشکروں کے حق میں سخت عذاب والا ہے۔ قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین۔ ’ تو کہہ دے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ یعنی ابراہیمی طریق کی ہدایت کی ہے جو یک رخہ اللہ تعالیٰ کا بندہ تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ “ ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین (نحل ع ١٠١) ” پھر ہم نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ تو ابراہیم موحد کے دین کا جو مشرک نہ تھا اتباع کر۔ آیات مذکورہ بالا جو مضمون بتلا رہی ہیں وہ مخفی نہیں بالکل واضح طور پر کہہ رہی ہیں کہ قرآن کی تعلیم کوئی نئی تعلیم نہیں بلکہ وہی پرانی حقانی تلقین ہے جو ابتدائے دنیا سے مخلوق کی ہدایت کے لیے آئی تھی لیکن یہ سوال کہ قرآن کی بصورت جدید کیا ضرورت تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانہ کے اہل کتاب کی بد اطواری خصوصاً تبلیغ احکام کے متعلق بددیانتی اور تورٰیت و انجیل کی طرز موجودہ اور مشرکین عرب کی ہدایت ہی موجب اس کی ہوئی کہ قرآن شریف بصورت جدید آوے چنانچہ ان امور کو قرآن شریف نے مفصلاً بیان کیا ہے پہلی آیت وہ ہے جہاں ارشاد ہے۔ واذ اخذ اللّٰہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس مایشترون (اٰل عمران ع ١٩) اللہ عالم الغیب نے کتاب والوں سے عہد لیا تھا کہ اس کتاب کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہنا اور اس کو مت چھپانا لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کو اپنے پیچھے پھینک دیا اور اس کے عوض میں دنیا داروں سے چند پیسے لینے شروع کردیئے پس جو لیتے ہیں بہت برا ہے۔ من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ (نساء ع ٧) بعض یہودی کلام کو اس کی اصل جگہ سے بدل دیتے ہیں۔ یٰٓاھل الکتب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق وانتم تعلمون۔ اے کتاب والو سچ کو جھوٹ سے کیوں ملاتے ہو اور دانستہ حق کو کیوں چھپاتے ہو۔ “ وان منھم لفر یقایلوون السنتھم بالکتاب لتحسبوہ من الکتاب وما ھو من الکتاب ویقولون ھو من عنداللّٰہ وما ھو من عنداللّٰہط ویقولون علے اللّٰہ الکذب وھم یعلمون (آل عمران ع ٧‘ ٨) بیشک ان اہل کتاب سے ایک فریق ہے جو زبانوں کو کتاب کے پڑھتے ہوئے مروڑتے ہیں تاکہ تم اس کو بھی جو دبی زبان سے کہتے ہیں کتاب جانو حالانکہ وہ کتاب سے نہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہاں سے ہے حالانکہ اللہ کے ہاں سے نہیں ہے اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں ۔ فبمالقضہم میثاقھم لعناھم وجعلنا قلوبھم قاسیۃ یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حظا مما ذکروا بہ ولا تزال تطلع علی خائنۃ منہم الا قلیلا منھم فاعف عنھم واصفح ان اللّٰہ یحب المحسنین٭ پس ان کے وعدے توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کتاب اللہ کو اصلی جگہ سے بدلتے ہیں اور جس چیز کی ان کو نصیحت ہوئی تھی ایک عظیم حصہ اس کا بھول بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ ان کی خیانتوں پر بجز چند لوگوں کے مطلع ہوتا رہے گا پس تو ان سے درگزر کر اور منہ پھیر کیونکہ اللہ نیکوں سے محبت رکھتا ہے “ ومن الذین قالوا انا نصاری اخذنا میثاقھم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ وسوف یبنہم اللّٰہ بما کا نوا یصنعون (مائدہ) عیسائیوں سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر وہ بھی بہت سا حصہ اس میں سے بھلا بیٹھے پھر ہم نے قیامت تک ان میں عداوت اور بغض ڈال دیا اور اللہ ان کو ان کے کاموں سے قیامت کے روز خبر دے گا۔ “ وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتعبوہ واتقوا لعلکم ترحمون ط ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طالفتین من قبلنا و ان کنا عن دراستھم لغافلین (انعام ع ٢٠) مشرکین عرب کو ارشاد ہے کہ ہم نے اس کتاب کو اس لئے اتارا ہے کہ تا تم نہ کہنے لگو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں کو کتاب ملی تھی اور ہم (بوجہ مغائرت زبان) ان سے بے خبر تھے۔ بالخصوص بیان لحاظ کہ تورٰیت و انجیل کے مضامین میں خلط ملط عظیم ہوا ہے جو اس کی طرز تحریر جتلا رہی ہے اور ان کی تعلیم واقعی یا بناوٹی کا بگاڑ کہ ایک اللہ کے تین اور تین سے پھر ایک بنانا جو نہ صرف انجیل بلکہ تورٰیت سے مستنبط کیا جاتا ہے بیشک اس بات کا مقتضی تھا کہ اللہ کی سچی تعلیم بالکل الگ کر کے حسب حال زمانہ ایسی طرز سے بیان کی جائے کہ اس میں کجرووں کو بالکل مجال سخن نہ ہو۔ اور پھر ساتھ ہی اس کے اس کتاب کی حفاظت صوری اور معنوی کا کوئی خاص انتظام ہو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ اللہ کی سچی تعلیم ایک ایسے قالب میں لا کر بیان کی گئی جس سے کجرووں کی کجروی نمودار اور عیاں ہوگئی جس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ۔ ما کان لبشر ان یوتیہ اللّٰہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللّٰہ ولکن کونوا ربا نیین بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون (آل عمران ع ١٨) ” کسی بندے کی شان ہی نہیں کہ اس کو اللہ کتاب عنایت کرے اور وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ اللہ سے ورے ورے مجھے بھی اللہ مانو لیکن یہ کہے گا کہ اپنے علم اور درس کی وجہ سے اللہ والے بنو۔ “ وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللّٰہ ولا تتبع اھواء ھم عما جاءک من الحق (المائدہ ع ٧) ایک آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے جو پہلی کتاب کو حق بتلاتی ہے علاوہ تصدیق کے اس پر خبرگیر بھی ہے (کہ اس میں کجرووں کی کجروی جو ہوئی ہو اس کی تغلیظ اور مضامین حقہ کی تصدیق کرے) پس تو ان میں اللہ کے اتارے ہوئے (قرآن) سے فیصلہ کر (کیونکہ وہ بلاشبہ صاف اور حق ہے) اور تیرے پاس جو سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کے (اور من گھڑت مطالب کے) پیچھے مت ہوجیؤ۔ ان آیات میں پہلی کتابوں کی تصدیق کر کے ان کے مخلوط بالغیر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ساتھ ہی قرآن شریف کے بصورت جدید آنے کی علت بتلائی ہے کہ قرآن اور کتب سابقہ کی مثال بالکل صحیح اور درست مسودہ اور مبیضہ کی سی ہے یعنی جس طرح مسودہ کو جس میں کئی زائد کم باتیں ملی ہوئی ہوں صاف کر کے مبیضہ بنایا جاتا ہے تو مسودہ سابقہ کو ردی میں پھینک دیا کرتے ہیں اسی طرح کتب سابقہ کے مضامین جن میں بجائے توحید خالص کے تثلیث اور مردم پرستی قائم کی گئی تھی ان کو صاف کر کے صحیح مضامین کو چھانٹ کر ایک صحیح مبیضہ تیار کیا گیا اور آئندہ کو اس کی حفاظت بندوں سے ہٹا کر اللہ عالم الغیب نے خود اپنے ذمہ لی۔ (تورٰیت اور انجیل کے مسودہ سے تشبیہہ اس کی حالت موجودہ کے لحاظ سے ہے جس میں ایسے مضامین بھی ہیں کہ حضرت لوط نے (معاذ اللہ) شراب پی کر اپنی لڑکیوں سے زنا کیا (پیدائش ١٩ باب) مسیح نے شراب کی دعوت میں شراب کے کم ہونے پر معجزہ سے شراب کو بڑھا دیا (یوحنا ٢ باب) اور نہ حقیقی تورٰیت انجیل نور ہدایت اور رحمت تھی جن کے مضامین قرآن میں آکر وہی لقب لے رہے ہیں۔ (فافہم) منہ) چنانچہ ارشاد ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الجزء ١٢) ” تم ہی نے اس نصیحت (قرآن) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “ چونکہ اللہ کے کام بذریعہ اسباب ہوا کرتے ہیں اس لئے اس حفاظت کا انتظام بھی حسب دستور اس نے اپنے بندوں سے اس طرح لیا کہ عموماً مسلمانوں میں بفضلہ تعالیٰ حافظان قرآن پائے جاتے ہیں۔ اس تنزل کے زمانہ میں بھی اللہ کی حفاظت کا یہ اثر ہے کہ مثلاً یہی شہر (امرت سر) جس میں تقریباً تین سو مسجد ہے رمضان میں عموماً ہر مسجد میں تراویح پڑھنے کو دو حافظ تو ضروری ہی ہوتے ہیں جس سے اوسط حساب چھ سو حافظ ہوتے جو خاص شہر کی آبادی کا حساب ہے اور گردو نواح کا اندازہ بھی اسی پر قیاس کرلیجئے پھر تمام اسلامی دنیا کا اس پر حساب ہونا آسان ہے حالانکہ یہ زمانہ عام طور پر مذہبی امور سے غفلت کا ہے اسی طرح نسلاً بعد نسل کرتے آئے ہیں اور کرتے جائیں گے جس سے کوئی کتنا بھی زور لگائے ایک زبر سے زیر اور پیش سے جزم نہ ہوگی۔ کیا کوئی اور قوم ہے جو اسلام کی اس خوبی اور پیشگوئی کا مقابلہ کر کے دکھائے بس تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا یا چلئے دکھاوے دہن ایسا مکر ایسی یہ ایک ایسی حفاظت ہے کہ مسلمانوں کو اسی کی بدولت وہ بدزمانہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا کہ اس کہنے پر مجبور ہوں کہ فلاں آیت الحاقی ہے اور فلاں باب جعلی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو کہنا پڑا (دیکھو تفسیر ہارن) پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم بالکل وہی ہے جو ابتدا سے اللہ نے اپنے بندوں کو دی تھی جس کو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے۔ ولقد وصینا الذین اوتوا الکتاب من قبلکم وایاکم ان اتقوا اللہ وان تکفروا فان للّٰہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللّٰہ غنیا حمیدا (نساء ع ١٩) ” تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہماری یہی نصیحت رہی تھی کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو جان رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ سب سے بے نیاز بذاتہ تعریفوں کے لائق ہے۔ “ ایک جگہ فرمایا : کتاب احکمت ایاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ان لا تعبدوا الا اللّٰہط اس کتاب کے حکم بڑے محکم اور اللہ کے پاس سے مفصل بیان ہوچکے ہیں کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو۔ اس تعلیم سابق کا بطرز جدید بصورت قرآن بیان کر کے آئندہ کو ہمیشہ کے خطرات سے اسے محفوظ کردیا کہ دوبارہ کجرووں کے اختلاط سے بگڑنے نہ پاوے یہی وہ نسخ ہے جو عام طور پر اہل اسلام تورٰیت انجیل کو منسوخ کہا کرتے ہیں نہ از لات و عزیٰ براورد گرد کہ تورٰیت و انجیل منسوخ کرو اور یہی دلیل آپ کے خاتم نبوت ہونے کی ہے اس لئے کہ نبی کی بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ حقانی تعلیم کی نسبت ہو غلو ہوا ہو اس کو معدوم کر کے اصل بات صاف صاف لوگوں کو پہنچا دے۔ لیکن جب اس تعلیم کا اللہ محافظ ہے اور اسی کی حفاظت کی وجہ ہے کہ اس میں کوئی خلل نہیں آیا تو نبی کے بھیجنے کی ضرورت کیا۔ رہی تبلیغ سو یہ عام طور پر علمائے اسلام کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے چنانچہ انہی معنی سے حدیث میں آیا ہے۔ علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل (حدیث) ” میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کا منصب رکھتے ہیں “ رہا یہ سوال کہ اگر قرآن شریف وہی خداوندی حقانی تعلیم ہے جو ہمیشہ سے بندوں کو ملتی رہی تھی تو ان میں رسوم مذہبی کا اختلاف کیوں ہے۔ مسلمانوں کی نماز وغیرہ عبادات عیسائیوں اور یہودیوں اور دیگر اہل کتاب سے کیوں مختلف ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں اسلامی عبادات صرف چار ہی ہیں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ (خیرات) نماز میں جو ارکان (قیام۔ رکوع۔ سجود) پائے جاتے ہیں پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا چنانچہ صدیقہ مریم کو ارشاد ہوتا ہے۔ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران ع ٥) ” مریم اپنے اللہ کے سامنے کھڑی ہو اور سجدہ اور رکوع کرنے والوں سے مل کر رکوع اور سجدہ کر۔ “ اسی طرح زکوٰۃ کا بھی ان کو حکم تھا جیسا کہ فرمایا۔ وما امروا الا لیعبدو اللّٰہ مخلصین لہ الدین حنفاء ویقیموا الصلوٰۃ ویوتوا الزکوٰۃ وذلک دین القیمۃ (منہ) ” ان کتاب والوں کو یہی حکم تھا کہ خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں اور نماز پر مضبوط رہیں اور زکوٰۃؔ (خیرات) دیتے رہیں یہی دین مضبوط دین الہٰی ہے۔ “ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (بقرہ) روزوں کی بابت بھی صاف حکم ہے کہ جس طرح تم پر روزہ فرض ہوا ہے اسی طرح پہلے لوگوں پر بھی ہوا تھا۔ اذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عیق لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم اللّٰہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقری (الحج ع ٤) ” ایسا حج کی بابت بھی ارشاد ہے کہ ابراہیم کو اللہ نے حکم کیا تھا کہ لوگوں میں حج کی منادی کر دے۔ تیرے پاس پاپیادہ اور دبلی دبلی اونٹنیوں پر دور دراز راستے سے سوار ہو کر آویں گے تاکہ اپنے منافع پر حاضر ہوں اور اللہ کا نام معین تاریخوں میں اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مویشی پر یاد کریں پس تم خود بھی ان میں سے کھائیو اور محتاج فقیروں کو بھی کھلائیو۔ “ باقی رہے اخلاقی مضامین (سچ بولنا۔ زنا نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا۔ ظلم نہ کرنا وغیرہ وغیرہ) سو یہ تو ایسے احکام ہیں کہ کسی شریعت اور قانون کی ذیل میں بیس آکر مبتدل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اسلام نے بھی ان میں کسی طرح سے تغیر نہ کیا بلکہ مزید تاکید ہی ان کے متعلق فرمائی۔ ہاں بعض عبادات اہل کتاب کی اسلام سے بیشک مختلف ہیں جیسے مسیح کی عبادت صلیب کی پرستش وغیرہ۔ سو اس کے ذمہ دار خود یہی جنٹلمین ہیں جن کی یہ خانہ ساز ہیں اسلام تو اللہ کی تعلیم حقانی کا مظہر ہے نہ کہ ان کے ایجاد کا بلکہ سچ پوچھو تو ایسی باتیں ہی تعلیم الہٰی کو بہ لباس قرآن لانے کے لئے مقتضی ہوئیں چنانچہ ارشاد ہے۔ یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما تخفون من الکتاب ویعفوا عن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتب مبین (مائدہ ع ٣) ” اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول (محمد ﷺ) آگیا ہے جو تمہاری بہت سی چھپائی ہوئی کتاب کو ظاہر کرتا ہے اور بہت سے تمہارے ذاتی عیوب سے درگذر کرتا ہے بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کتاب روشن آپہنچی۔ “ پس مختصر یہ کہ قرآن شریف وہی حقانی تعلیم ہے جو ابتدائے آفرنیش سے بندوں کی ہدایت کے واسطے آئی تھی جو کجروؤں کی کجروی سے ردو بدل ہو کر مخلوط بالغیر ہوچکی تھی اسی کو صاف و مصفیٰ کر کے مع بعض واقعات تاریخیہ بطور عبرت بیان کیا گیا ہے پس جو مضمون اس محفوظ مضمون کے مخالف ہوگا وہ مردود متصور ہوگا اور جس کی قرآن شریف تصدیق کرے گا وہی صحیح اور قابل اعتبار ہوگا۔ رہی یہ بحث کہ تورٰیت و انجیل میں تحریف لفظی ہے یا معنوی سو یہ بحث طویل الذیل ہے اس لئے اس کو ہم کسی اور موقع پر چھوڑ کر اس حاشیہ کو ختم کرتے ہیں اور اخیر میں ارشاد خداوندی سب اہل کتاب کو سناتے ہیں۔ یایھا الذین اوتوا الکتاب امنوا بما نزلنا مصدقا لما معکم من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی اذبار ھا او نلعنھم کما لعنا اصحب السبت وکان امر اللّٰہ مفعولا۔ (النساء ع ٧) اے کتاب والو ! ہماری اتاری ہوئی کتاب (قرآن) کو مانو جو تمہارے ساتھ والی کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے پہلے (مانو) کہ ہم کئی منہ بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی شکل پر ان کو کردیں یا ان کو لعنت کریں جیسی کہ سبت والوں کو لعنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا ہے۔ (منہ) “ مگر چونکہ ہر ایک امر جائز ہویاناجائز کسی وجہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے کرنے والے کے نزدیک کوئی نہ کوئی وجہ (خواہ واقع میں کیسی ہی غلط ہو) ہوا کرتی ہے یہ بے پروائی ان کی بھی اس وجہ سے ہے (دیکھو تو کیسی غلط وجہ سے) کہ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہمیں اگر ہوا تو چند روز ہی عذاب ہوگا کیونکہ ہم خاندان موت سے ہیں انبیاء کی اولاد بزرگوں کی ذریت ہیں مسیح ہمارا کفارہ ہے کیا ہمارا اتنا بھی لحاظ نہ ہوگا کہ ہمیں تھوڑا سا عذاب جتنے روز ہمارے بزرگوں سے بچھڑے کی پوجا ہوئی تھی ہو کر رہائی ہوجائے دیکھو تو کیسا ان کو مذہب کے بارے میں ان کے جھوٹے ڈھکوسلوں نے فریب دے رکھا ہے پس اگر یہ ایسے ہی خیالات واہیہ پر رہے تو ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ان کو جمع کریں گے جو بلاشبہ ہونیوالا ہے اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر کسی طرح ہماری طرف سے ظلم نہ ہوگا۔ اس روز ان کی کارستانی کی قلعی کھلے گی اور خوب جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی کچہری ایسی نہیں کہ وہاں کوئی چون وچرا کرسکے اور اپنے خاندانی حقوق جتلائے بلکہ جو کچھ عرض معروض کرنا ہوعاجزانہ سے ہوگا طریق چونکہ محکمہ اللہ کریم میں عجزونیاز ہی کام آتا ہے اس لئے ہم تجھے (اے نبی) ہدائت کرتے ہیں کہ تو اگر اپنی حاجت بر آری چاہتا ہے تو یوں کہہ کہ اے اللہ تمام ملک کے مالک تو جس کو چاہے دنیا کا ملک اور حکو مت دیتا ہے اور جس سے چاہے دیا ہوا چھین بھی لیتا ہے اور جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے ذلیل کرتا ہے حق یہ ہے کہ تیرے ہی اختیار میں ہر طرح کی بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے یہ تیری ہی قدرت کے آثار ہیں کہ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں کبھی دن کو بڑھاتا ہے اور کبھی رات کو اور زندہ کو مردہ جیسے نطفہ سے نکالتا ہے اور مر دہ کو زندہ زندہ سے باہر نکالتا ہے اور ساتھ ہی یہ کمال قدرت ہے کہ جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے ” شان نزول :۔ (قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ) آنحضرتﷺ نے اپنی امت کو وعدہ فتوحات کثیرہ کا دیا تو منافقین کوتاہ اندیشوں نے اس سے تعجب کیا کہ کیونکر ایسی فتوحات ضعیف مسلمانوں کو ہوسکتی ہیں۔ اس واقع پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) “ پس ایسے خیالات اور اعتقادات موجب نجات ہیں اور اگر کسی کافر یا فاسق کی محبت میں بیٹھ کر تم بگڑے تو گئے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی مت لگائیں تاکہ ان کی طرح بد اخلاق نہ ہوجائیں اور اللہ کے غضب میں نہ آجائیں جو کوئی یہ کام کرے وہ اللہ سے بے تعلق ہے ہاں اگر ان سے ضرر کا اندیشہ ہو تو کسی قسم کا بچاؤ کرلو تو جائز ہے تاکہ ان کے ظلم سے بچے رہو اور دنیاوی معاملات میں ان سے سلوک کرنا چاہو تو کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ تم دل سے ان کی محبت اور خیر خواہی کو مومنوں کی محبت اور بہی خواہی پر ترجیح دو خبردار ایسا نہ کیجیو اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے بہتر ہے کہ تم سمجھ جاؤ اور جان لو کہ انجام کار تمہیں اللہ کی طرف پھر نا ہے اگر اس کی مرضی حاصل کی ہوگی تو نجات پاؤ گے ورنہ نہیں اور اگر ظاہر میں تیری بات کو ہاں ہاں کریں اور دل میں کافروں سے محبت رکھیں تو تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اس کو ظاہر کرو تو دونو طرح سے اللہ اس کو جانتا ہے کیونکہ وہ بڑا علام الغیوب ہے وہ تمام آسمان اور زمین کی چیزیں بھی جانتا ہے علاوہ اس کے وہ ہر ایک کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے ” شان نزول : (لایتخذ المؤمنون الکافرین) بعض سادہ مزاج مسلمان اہل کتاب سے دوستی محبت رکھتے تھے۔ دور اندیش مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی عداوتیں بین دیکھ کر ان کو اس دوستی سے منع کیا مگر وہ اس سے باز نہ آئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ بدکاروں کو ایسی سزا دے گا کہ یاد کریں گے کب دیگا؟ جس روز ہر ایک شخص اپنا بھلا برا کیا ہوا اپنے سامنے پاویں گے تو اپنے برے اعمال کی سزا دیکھ کر آرزو کرے گا کہ مجھ میں اور اس برے کام میں دوری دراز ہوجائے تاکہ میں اس پر وحشت چیز کے دیکھنے سے آرام پاؤں مگر اس آرزو کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا اسی وجہ سے اللہ تم کو اپنے آپ سے اور اپنے عذاب سے ڈراتا ہے کہ تم اس کے آنے سے پیشتر باز آجاؤغور کرو تو یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ بار بار تم کو اس سے متنبہ کرتا ہے اس لئے کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بندے بے خبری میں پھنس جائے