وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے [٨٣] گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کی حالت خود کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے [٨٤] تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
(55۔57) ہاں اگر تم یہ خیال کرو کہ ہم جو فرمانبرداری کریں گے تو علاوہ جنت اور اخروی ثواب کے دنیا میں ہم کو کیا ملے گا تو سنو ! گو دنیا دار جزا نہیں ہے تاہم جو لوگ تم مخاطبوں میں سے ایمان لا کر نیک عمل بھی کریں گے اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ ان کو زمین پر حاکم بنادے گا جیسا اس نے ان سے پہلے لوگوں بنی اسرائیلیوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جو خود اللہ نے ان کے لئے پسند کیا ہے مضبوط کردے گا یعنی اس کو کسی مخالف کی مخالفت سے صدمہ نہ پہنچے گا اور ان کے خوف زدہ ہونے کے بعد جو اس وقت دشمنوں کی طرف سے ان کو ہورہا ہے ان کو امن دے گا بس اس کے بعد وہ آرام اور اطمینان سے میری (اللہ کی) بندگی کریں گے اور کسی مشرک کافر کے دبائو یا خوف سے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے یہ انعام ایمان داروں کو دنیا میں ملے گا اور جو اس کے بعد بھی ان احسانات اور انعامات کی نا شکری کرینگے پس ثابت ہوجائیگا کہ وہی لوگ اللہ کے نزدیک بدکار ہیں پس تم لوگ ایسے نہ بنو بلکہ ابھی سے ایمان لائو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول (علیہ السلام) کی پیروی کیا کرو تاکہ اللہ کی طرف سے تم پر رحم کیا جائے اور یہ تو خیال ہی نہ کرو کہ کافر لوگ اتنے ہیں اتنی ان کی جماعت اور سامان ہے یہ کیونکر ہوگا یہ سب مغلوب ہوجائیں اور مسلمان ان پر غلبہ حکومت پا جائیں یہ واہمہ دل سے نکال دو یہ مت خیال کرو کہ کافر لوگ زمین میں اللہ کو کوئی حکم جاری کرنے سے عاجز کرسکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں بھلا جو کام اللہ کرنا چاہے اسے کوئی روک سکتا ہے؟ کیا تم نے نہیں سنا کہ ؎ اوست سلطاں ہرچہ خواہدآں کند عالمے را دردمے ویراں کند ان کافروں کی تو ہستی ہی کیا ہے اگر تم لوگ زندہ رہے تو دیکھ لو گے کہ یہ لوگ دنیا میں بھی تمہارے سامنے ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ آگ ہوگا جو بہت بری جگہ ہے (یہ آیت سیوھوں اور شیعوں کے مشہور متنازعہ مسئلہ خلافت کا فیصلہ کرتی ہے بشرطیکہ کوئی شخص اس آیت کریمہ کو غور سے دیکھے اور جانبداری اور اپنے سابقہ خیالات کو دل و دماغ سے نکال دے آیت کے الفاظ یہ ہیں وعداللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت منکم کے لفظ کو اگر بیانیہ کہا جائے تو بہت موزوں ہے لیکن اگر نہ بیانیہ نہ بھی کہیں تو کچھ حرج نہیں بہرحال یہ آیت قرآن مجید کے اول المخاطبین سے اول تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس میں صیغہ خطاب کا ہے جو منکم سے مفہوم ہوتا ہے پس آیت کا ترجمہ صاف یہ ہوا کہ مخاطبوں میں سے ایمانداروں اور نیک کرداروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ تم کو خلیفہ بنا دے گا پھر اس خلافت کے آثار اور علامات بھی فرما دیتے ہیں (١) دین ان کا مضبوط کرے گا (٢) اور اسے بے خوف کر دے گا (٣) اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا ساجھی نہ بنائیں گے اب اگر کوئی شخص ان علامات کو مدنظر رکھ کر غور سے تلاش کرے کہ اس قسم کی خلافت مسلمانوں کو کب ملی تو اس کو کوئی شک نہ رہے گا کہ اس قسم کی حکومت خلفاء راشدین کے زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل تھی خلفاء امیہ اور عباسیہ کے وقت بھی اسلام کو فتوحات ہوئیں مگر وہ اس پیش گوئی کی مصداق نہیں ہوسکتیں کیونکہ ایک تو وہ خلفا نزول قرآن مجید کے اول مخاطب نہ تھے بلکہ بعد کی نسلیں تھیں۔ دوم ان کی خلافتوں کی فتوحات بھی اونہی فتوحات پر مبنی تھیں جو خلفائے راشدین کر گئے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ آنحضرت کے بعد عرب میں جب بغاوت پھیلی۔ ایک طرف مسلمہو کذاب نے زور پکڑا۔ دوسری طرف مانعین زکوٰۃ مسلمان باغیوں نے تہلکہ مچایا مگر صدیق اکبر (رض) کے استقلال نے ان سب بغاوتوں کا آسانی سے خاتمہ کردیا اور تمام عرب پر اسلامی سکہ جما کر فتوحات کے لئے عرب خاص سے آگے کا راستہ صاف کردیا۔ ان کے بعد حضرت فاروق اعظم نے اس راستہ کو شاہ راہ بنایا۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں فتوحات گو اس زور کی نہ ہوئیں تاہم ہوئیں کوئی ملک یا حصہ خلافت سے نہ نکلا تھا بلکہ داخل ہوا بعد میں جو کچھ ہوا وہ انہی کی طفیل سے ہوا اعداد سے بخوبی تو ایسی تمہیں کہ اعدا خود ڈرتے تھے کہ کہیں مسلمان ہم پر حملہ آور نہ ہوں توحید کی منادی جیسی اس زمانہ میں ہوئی کبھی نہیں ہوئی۔ اس موقع پر ہمیں یہ بتانا ضروری نہیں کہ فتوحات اسلامیہ جیسی حضرات خلفاء ثلاثہ کے زمانہ میں ہوئیں حضرت علی کے زمانہ میں نہ ہوئیں۔ جیسا رعب اور انتظام خلفاء ثلاثہ کے وقت میں تھا خلیفہ رابع کے وقت میں نہ رہا۔ جیسا اتفاق خلفا ثلاثہ کے وقت میں تھا خلیفہ رابع کے وقت میں نہ رہا۔ اس تفصیل کی نہ ہم کو ضرورت ہے نہ ہم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو الفاظ وعدہ کے آئے ہیں ان پر نظر انصاف کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ وعدہ خلفاء ثلاثہ راشدین کے زمانہ میں پورا ہوگیا حضرت علی کا زمانہ گو ایک قسم کی بدمزگی نااتفاقی اور خانہ جنگی کا تھا تاہم خیر و برکت سے خالی نہ تھا ہر طرح سے دین کی عزت اور دینی علم کا اعزاز تھا جب کہ یہ عام قاعدہ ہے کہ اللہ پنج انگشت یکساں نہ کرو تو پھر کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ خلفاء راشدین بھی ایک ہی طرز پر ترقی کرتے ہاں مجموعی حالت کے لحاظ سے سب آیت کریمہ کے وعدے کے مصداق تھے۔ افسوس کہ آیت کریمہ کے صاف الفاظ کے مقابلہ پر شیعہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے من کنت مولاہ فعلی مولاہ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے اور مولا کے معنے والی امور اور حاکم کے بتاتے ہیں حالانکہ مولا کے معنے دوست اور محبوب کے بھی آتے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں ارشاد ہے یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئا یہاں مولیٰ سے مراد یقینا دوست ہے اسی طرح حدیث مذکور میں ہے اسی لئے ان الفاظ کے ساتھ یہ مذکور ہے اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ یعنی آنحضرت نے بعد فرمانے سابق ارشاد کے فرمایا اے اللہ جو کوئی علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھیو اور جو علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھیو یعنی اس کو مبغوض کیجئیو ہماری پیش کردہ آیت اور حدیث کے اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی کے مولا ہونے سے مراد دوست اور محبوب ہونا ہے نہ کہ والی امور۔ پس اس سے یہ ثابت نہ ہوا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق وغیرہ کی خلافت آیت کریمہ کی مصداق نہ تھی بلکہ علی کی تھی۔ افسوس صد افسوس ہے کہ ایک تو آیت قرآنیہ سے غفلت کی جاتی ہے دوم روایت پیش کردہ کے معنے بھی حسب منشا کرنے کی کوشش کر کے ناحق صاف اور صحیح واقعات کو مکدر کرنے میں وقت ضائع کیا جاتا ہے الی اللہ المشتکی (منہ)