لَّقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ ۚ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ہم نے صاف صاف حقیقت بتلانے والی آیات اتاری ہیں اور سیدھی [٧٤] راہ کی طرف رہنمائی تو اللہ ہی جسے چاہے کرتا ہے۔
(46۔54) بلکہ بعض نادان پھر بھی نہیں سمجھتے بلکہ سمجھانے والوں سے الٹے الجھتے ہیں مثلاً انہی کفار عرب دیکھو تو باوجودے کہ ہم (اللہ) کھلے کھلے احکام اتارتے ہیں تاہم ناحق بگڑتے ہیں اور بیہودہ سوالات کئے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اللہ ہی جسے چاہے سیدھی راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے مناسب ہے کہ اس کی رضا جوئی کریں تاکہ اس کی مہربانی سے حصہ لیں مگر ان کو اس بات کا مطلق خیال نہیں الٹی شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور دیکھو کہ سامنے آن کر تو کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے ہیں اور فرماں بردار ہیں زبانی یہ بات کہہ کر پھر بھی اس کے بعد ایک جماعت ان میں سے روگردان ہوجاتی ہے اور سچ پوچھو تو وہ دل سے ایمان دار ہی نہیں ہوتے بلکہ یونہی زبانی زبانی تم مسلمانوں کو فریب دیتے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ وہ دل سے پابند شریعت نہیں ہوتے اور جب کبھی ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ رسول حسب فرمان الٰہی ان میں فیصلہ کرے تو اسی وقت ایک جماعت ان میں سے روگردان ہوجاتی ہے صاف اور کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں شریعت منظور نہیں جیسے کہ ہندوستان کے مسلمان عدالتوں میں لڑکیوں کو حضہ دینے کے وقت کہدیا کرتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ رواج پر ہونا چاہئے اور اگر ان کو حق پہونچتا ہو تو اس رسول اور رسول کے فرمودہ کی طرف دوڑتے چلے آتے ہیں یہ جو ایسا کرتے ہیں کیا ان کے دلوں میں کفر کا مرض ہے یا یہ رسول کی سچائی سے شک میں ہیں یا ان کو خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے چونکہ زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اس لئے ان تینوں باتوں میں سے کچھ نہیں کہہ سکتے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں نہ ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت ہے نہ رسول کی تعظیم ہے بلکہ محض اپنے نفس کے پابند ہیں ہاں جو پکے ایمان دار ہیں ان کی کیا بات ہے ایسے ایمان داروں کو جب کسی جھگڑے میں کسی نزاع میں اللہ اور رسول اور ان کے فرمودہ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان میں فیصلہ کرے تو چونکہ اپنی تمام کامیابی اور ساری عزت صرف رضاء الٰہی اور خوشنودی رسالت پناہی میں جانتے ہیں اس لئے ان کا جواب بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور دل سے تابع ہیں جو کچھ شریعت فیصلہ کردے گی ہمیں منظور ہے اگر ہم اپنے خیال ناقص میں کسی چیز پر اپنا حق سمجھتے ہوں مگر شریعت ہمارے خیال کے برخلاف فیصلہ کردے تو علی الراس والعین ہوگا اور اگر سچ پوچھو تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک کامیاب اور بامراد ہیں کون نہیں جانتا کہ غلام کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اپنے مالک کا پورا مزاج شناس ہو کر دل سے فرماں بردار ہو جو غلام ایسا ہوگا وہی عزت پاوے گا اس لئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے اور اللہ سے ڈرتے رہیں گے اور اس کی نافرمانی سے بچیں گے پس وہی لوگ اللہ کے نزدیک کامیاب ہوں گے ایسے لوگوں کو پہنچاننا چاہو تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے اور یہ جو لوگ جو تمہارے ارد گرد منافق ہیں اور زبانی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ بڑی مضبوطی سے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تو اے نبی ان کو جہاد وغیرہ دینی کاموں کیلئے سفر کرنے کا حکم دے تو ضرور نکلیں گے تو اے نبی ! ان سے کہہ کہ ہم نے تم کو کئی ایک بار دیکھ لیا آزمالیا ہے پس تم قسمیں نہ کھائو محض قسموں سے تو فائدہ نہیں مطلب تو اچھی تابع داری سے ہے سو اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اسے تمہارا تمام حال من وعن سب معلوم ہے پس تو ان سے کہہ کہ اللہ کی تابعداری کرو اور اس کے رسول کی جو الٰہی کے احکام تم کو سنائے فرمانبرداری کرو پھر یہ سن کر اگر وہ روگردان ہوں تو نبی کا اس میں کوئی حرج نہیں اس کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کے ذمہ ہے اور تم لوگوں کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ تم پر ہے نبی کو تبلیغ احکام کا حکم ہے وہ نہ کرے گا تو اس کو اس سے سوال ہوگا تم کو اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم ہے تم نہ کرو گے تو تم سے سوال ہوگا اور اگر تم فرمانبرداری اختیار کرو گے تو ہدایت پائو گے اور رسول کے ذمے صاف صاف پہچانا ہے