وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور تم میں سے جو لوگ مجرد [٥٠] ہیں ان کے نکاح کردو۔ اور اپنے لونڈی، غلاموں کے بھی جو نکاح کے قابل [٥١] ہوں۔ اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی [٥٢] سے انھیں غنی کردے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
(32۔34) اور دنیاوی ننگ ونمود جاہلانہ کا خیال ترک کر کے ٖ… اپنے میں سے بیوگان کی اور اپنے نیک چلن غلاموں اور لونڈیوں کی شادیاں کردیا کرو کیا تم بھی ان لوگوں کی طرح نیچرل سائینس نیچرل سائینس زبانی ہی ورد کرو گے اور یہ نہ سمجھو گے کہ عورت کو مرد کی اور مرد کو عورت کی ضرورت قدرتی ہے تم بھی ان نادانوں کی طرح اگر پانی کو روکنے کی فضول کوشش کرو گے تو پانی اپنا راستہ آپ کرلے گا پس تم اس بیہودہ خیال کو دل ودماغ سے نکال دو سنو ! اگر وہ محتاج بھی ہوں گے یعنی تمہارے غلام یا وہ لوگ جو تمہاری بیوگان اور لونڈیوں کے نکاح کے لئے پیغام دیں تنگ دست ہوں مگر ساتھ اس کے شریف اور بھلے مانس بھی ہوں تو اس خیال سے نکاح مت روکو امید رکھو کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا تم نہیں جانتے ؎ بننا بگڑنا ساتھ زمانے کے ہے بنا دوچار گھر بگڑ گئے دوچار بن گئے پس اس خیال سے اس کام کو مت روکا کرو اور یاد رکھو کہ اللہ بڑا فراخی والا اور جاننے والا ہے (اس لفظ میں آج کل کے آریوں کی طرف اشارہ ہے جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو مذہب دلیل اور عقل سے ثابت نہ ہو وہ غلط ہے مگر بیوگان کی شادی کے متعلق ان کا خیال بھی نفی میں ہے ان کے گرو سوامی دیانند اپنی مشہور کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں کہ ” جن عورتوں اور مردوں کی مجامعت ہوچکی ہو ان کی مکرر شادی نہ ہونی چاہئے۔“ (اردو طبع اول ص ١٤٦) یعنی جس مرد نے اپنی عورت سے جماع کرلیا ہو اگر وہ رنڈوہ ہوجاوے تو وہ دوبارہ شادی نہ کرے اور جس عورت سے جماع ہوچکا ہو وہ بیوہ ہوجائے تو اس کی بھی مکرر شادی نہ ہونی چاہئے۔ حالانکہ شادی اور نکاح کی ضرورت ایک قدرتی امر ہے کون نہیں جانتا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت قدرتی ہے یعنی مرد کو جو عورت کی خواہش ہے اور عورت کو مرد کی یہ سب اللہ کی قدرت سے ہے قدرت ہی نے ان میں یہ ضرورت اور حاجت پیدا کی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ایک جوان لڑکا پچیس تیس سال کا رنڈوہ ہو یا ایک جوان لڑکی بیس پچیس برس کی عمر میں بیوہ ہو تو کیا ان میں یہ خواہش نہ ہوگی کیا ان کی یہ خواہش قدرتی نہیں ہے پھر کیا باعث ہے کہ ان کو ان کی جائز خواہش کے پورا کرنے سے روکا جائے اسی لئے قرآن مجید میں حکم دیا گیا کہ انکحوا الایامی منکم (اپنی بیوگان کی شادی کردیا کرو) بیچاری بیوگان پر جو ظلم ہوتا تھا وہ منتظر تھیں کہ آریہ سماج نکلے گی تو ہماری مصیبتوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر جب آریہ سماج نے بھی ان مظلومات پر وہی ظلم توڑے جو پہلے ہندو قوم توڑ رہی تھی تو مظلومات نے سماج کو مخاطب کر کے بزبان حال یہ شعر پڑھا : ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا سخت افسوس ہے ان مسلمانوں پر جنہوں نے ہندوئوں کی اس بد رسم کو اپنے میں جاری رکھا ہے پھر باوجود سمجھانے کے نہیں مانتے پھر اس کے نقصانات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اللہ ان کو ہدایت کرے۔ آمین (منہ) ہاں یہ اور بات ہے کہ جو لوگ نکاح کے اخراجات کا مقدور نہیں رکھتے وہ خود ہی اس کام (نکاح) کا حوصلہ نہ کریں اور یہ خیال کریں کہ اکیلی جان کا بوجھ تو اٹھایا نہیں جاتا خوا مخواہ دوسرے کا گٹھ کیوں گردن پر رکھیں تو خیر وہ لوگ پرہیز گاری سے رہیں زنا کاری وغیرہ سے بچتے رہیں یہاں تک کہ ان کی نیک نیتی کا نتیجہ ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے کم سے کم اتنا غنی کر دے کہ نکاح کے اخراجات کے علاوہ نان ونفقہ کا تحمل بھی کرسکیں مگر اس رکنے کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اس تجرد میں ان کو پریشان خیالات پیدا نہ ہوں اس کے علاوہ ایک بات اور سنو ! کہ تمہارے مملوکہ غلاموں میں سے جو مکاتبت چاہیں اگر تم بھی ان میں کچھ بھلائی جانو تو مکاتبت کرو یا کرو یعنی تم ان کے برتائو سے یہ جانتے ہو کہ اگر ان کو کھلا چھوڑا جائے گا تو کما کر بچائیں گے اور وعدہ وفائی کرئیں گے تو ایسے غلاموں سے بے شک مکاتبت کرلیا کرو تاکہ ان کی آزادی کی کوئی صورت نکل آوے بلکہ ان سے اور سلوک کرنے کو اللہ کے مال میں سے جو اس نے تم کو دیا ہے بطور راس المال بضاعت کے ان کو بھی دیا کرو وہ اس سے کچھ کاروبار کریں اور کمائیں کیا تم نے نہیں سنا ؎ چو حق بر تو پاشد تو برخلق پاش اور سنو ! یہ بھی کیسا ایک واہیات اور قابل نفرت کام ہے جو عرب کے بعض لوگ کرتے ہیں ہ لونڈیوں سے جبرا زنا کاری کرواتے ہیں اور اس کمائی سے پیٹ پالتے ہیں حالانکہ لونڈیاں خود اس سے متنفر ہوتی ہیں مگر وہ جبرا ان سے ایسا کراتے ہیں پس تم اپنی لونڈیوں کو زناکاری پر مجبور نہ کرنا اگر وہ زنا سے بچنا چاہیں تم کو شرم نہیں آتی کہ تم ان پر جبر کرتے ہو شرم چاہئے کہ وہ عورتیں ہو کر اس بدکاری سے بچیں اور تم مرد ہو کر اتنا نہ سمجھو کہ تم کو ان سے زیادہ پرہیز کرنا چاہئے کیا تم اس لئے ایسا کرتے ہو کہ دنیا کی زندگی کا مال و متاع حاصل کرو پس اس شرارت سے باز آئو اور ایسے روپیہ پر لعنت بھیجو اور یاد رکھو کہ جو کوئی ان کو زنا کاری اور دیگر ناجائز حرکات پر مجبور کرے گا وہ لونڈیاں تو بری رہیں گی کیونکہ ان کی مجبوری کے بعد اللہ ان کے حق میں بخشنہار مہربان ہے مگر ان مردوں کی خیر نہ ہوگی جو ان کو مجبور کریں گے یہ مت سمجھو کہ اگر وہ لونڈیاں بھی اس بدکاری پر راضی ہوجائیں تو پھر یہ جائز ہوگا نہیں کیا تم نے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر نہیں سنا کہ (ینھی عن الفحشاء والمنکر) اللہ تعالیٰ مطلق زنا اور بدکاریوں سے منع فرماتا ہے پس تم ایسا خیال دل میں کبھی نہ لائو کیونکہ ہم نے تمہاری طرف کھلے کھلے اور واضح احکام بھیجے ہیں اور تم سے پہلے گذشتگان کی حکایات بھی تم کو سنائی ہیں اور پرہیز گاروں کئے بد وعظ اور نصیحت اتاری ہے پس اس سے فائدہ حاصل کرو اور اسی کی طرف دل لگائو چونکہ اس کلام منزل میں افہام وتفہیم کے کئی ایک طریقے ہیں کبھی دلائل عقلیہ سے ہے تو کبھی نقلیہ سے کبھی گذشتگان کے واقعات سے ہے تو کبھی آئندہ کے حالات سے کبھی کسی معقول کو محسوس کی تشبیہ سے تو کبھی محسوس کو معقول سے چنانچہ یہاں بھی ایک مثال بطور تشبیہ کے تم کو سنائی جاتی ہے کہ تم کو جو بار بار کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا اصل مقصود اور مدعا سمجھو اور اسی کے رنگ میں رنگے جائو