سورة الكهف - آیت 83

وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے پوچھتے ہیں۔ آپ انھیں کہئے کہ ابھی میں اس کا کچھ حال تمہیں سناؤں گا

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(83۔110) پس یہ لوگ جو تجھ سے ( اے نبی) ذوالقرنین کا قصہ پوچھتے ہیں تو ان کو کہہ کہ میں اللہ کے بتلانے سے تم کو اس کا تھوڑا سا قصہ سناتا ہوں سنو ! اللہ فرماتا ہے ہم نے اس کو ملک میں قدرت دی تھی اور ہر چیز کے سامان اور حصول کے ذریعے ہم نے اس کو دئیے تھے پس وہ ملک میں دورہ کرتا ہوا ایک راہ پر چلا گیا جہاں تک کہ جب وہ اپنے ملک کے مغربی سمندر کے کنارہ پر سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچا تو اس نے اپنے خیال میں سورج کو پانی کی دلدل میں سمندر کے اندر ڈوبتا پایا جیسا کہ عموما کنارہ سمندر پر کھڑے ہو کر گمان ہوتا ہے گو یہ خیال صرف واہمہ ہوتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ نظر میں ایسا ہی آتا ہے اور اس نے اس کے پاس ایک قوم بھی آباد پائی جو سمندر کے کنارے کنارے بس رہی تھی جن کے حق میں ہم (اللہ) نے اس سے کہا یعنی اس کے دل میں القا کیا کہ اے ذوالقرنین بادشاہ مناسب مصلحت ان کو سزا دو۔ یا انکے حق میں حسن سلوک اختیار کرو جیسا کوئی ہو اس سے ویسا ہی برتو اس نے سوچکر ایک عام اعلان کیا اور کہا کہ جو کوئی ظلم یعنی خون خرابے ! کریگاہم سرکار اس کو دنیا میں عذاب کی سزا دینگے پھر وہ مر کر اپنے پروردگار کے پاس جائے گا تو وہ بھی اس کو سخت سزا دیگا غرض دونوں جہانوں میں اس کی بری گت ہوگی (اس مقام پر مخالفین اسلام نے بہت بہت موشگافیاں کی ہیں اور ناحق اپنی معمولی بے سمجھی سے قرآن شریف پر اعتراضات کئے ہیں کہ سورج تو تمام کرہ زمین سے بدرجہا بڑا ہے پھر وہ سمندر میں ڈوبا کیسا ہوگا لیکن یہ ان کا خیال خام ہے وجد کے معنے ہیں اس نے خیال کیا پس مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین نے سمندر کے کنارہ پر مغرب کے وقت خیال کیا کہ سورج سمندر کے اندر ڈوبتا ہے سمندر کے کنارہ پر تو کیا کسی بڑے تالاب پر بھی ایسا ہی خیال ہوتا ہے اس کی حکایت قرآن شریف میں ہے۔ بعض بلکہ اکثر علماء نے یہاں پر جو ظلم اور ایمان کے معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ظلم سے مراد شرک کفر ہے اور ایمان سے مراد اسلام ہے ذوالقرنین نے اپنی رعیت میں اعلان کیا کہ جو کوئی شرک کرے گا اس کو سزا دوں گا اور جو ایمان لائے گا اس کو نواز دوں گا چونکہ یہ معنے اصول شریعت کے برخلاف ہیں کیونکہ شریعت کا قانون ہے کہ رعایا خواہ مشرک ہو اس کی بھی حفاظت کی جاتی ہے نہ یہ کہ ان کو شرک کرنے پر سزا ملتی ہے اس لئے میں نے یہ معنے نہیں کئے۔ (منہ) اور جو امن سے رہیگا دوسروں کو امن دیگا لوٹ کھسوٹ نہ کریگا اور اپنے آپ میں نیک عمل کریگا تو اس کو اچھا بدلہ ملیگا اور ہم بھی اس کو اپنے کاموں میں آسانی کریں گے یعنی خراج وغیرہ میں اس کو تخفیف کریں گے یہ ایک عام اعلان بطور ایک سرکلر سرکاری کے ذوالقرنین نے جاری کیا جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ ملک میں امن ہو کوئی کسی پر لوٹ کھسوٹ نہ مارے چنانچہ اس کے اس سرکلر (اعلان شاہی) نے خوب اثر کیا کہ غارت گر قومیں ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے برتائو کرنے لگ گئیں پھر وہ ایک اور راہ چلا یہاں تک کہ جب وہ اپنے ملک میں سورج کے چڑھنے کی جگہ پر پہنچا تو سورج کو ایک ایسی قوم پر چڑھتے ہوئے اس نے پایا کہ ان کے لئے سورج سے ورے ہم (اللہ) نے کوئی روک نہ بنائی تھی بالکل وہ سمندر سے نکلتا ہوا ان کے سامنے طلوع کرتا تھا کوئی پہاڑ وغیرہ اس میں حائل نہ تھا اسی طرح ذوالقرنین سکندر اپنے ملک میں دورہ کرتا تھا اور اس کے پاس جو کچھ تھا ہمیں اس کی پوری اطلاع اور خبر تھی پھر وہ ایک اور راستہ چلا یہاں تک کہ پہاڑی سلسلسہ میں جب وہ دو گھاٹیوں کے بیچ پہنچا یعنی ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ تھا جیسا ہمارے ملک کی سرحد پر درہ خیبر یا درہ بولان ہے وہاں پہنچ کر اس نے ان پہاڑوں سے ورے ایک قوم پائی جو بوجہ اپنے وحشیانہ پن اور غیر زبان ہونے کے ذوالقرنین کی کوئی بات نہ سمجھ سکتے تھے آخر انہوں نے کسی ترجمان وغیرہ کے ذریعہ ایک درخواست گذاری اور کہا اے ذوالقرنین ! یاجوج ماجوج کی قوم جو اس درے سے پار رہتے ہیں ہمارے ملک میں فساد کرتے ہیں کیا ہم حضور کے لئے کچھ ٹیکس ادا کردیں کہ حضور ہمارے اور ان کے درمیان کوئی مضبوط سی روک کردیں ذوالقر نین کا چونکہ فرض منصبی تھا کہ اپنی رعیت کو مفسدوں سے امن دلائے اس لئے اس نے اس معمولی کام کیلئے نیا ٹیکس لگانا تو پسند نہ کیا اور کہا جو کچھ اللہ نے مجھے قدرت اور طاقت بخشی ہے وہی کافی اور بہت اچھی ہے پس تم ٹیکس تو نہ دو البتہ اپنی قوت سے میری مدد کرو یعنی میری مزدوری کرو اور سد سکندری اور یاجوج ماجوج : سد سکندری نے بھی لوگوں کو حیران کر رکھا ہے حالانکہ یہ واقعہ ایک معمولی ہے کہ ذوالقرنین بادشاہ ملک کا دورہ کرتا ہوا جب ایک پہاڑی قوم کے پاس پہنچا تو اس قوم نے درخواست کی کہ ہمارے ملک پر مفسدوں کا گروہ لوٹ کھسوٹ کرتا ہے حضور اس کا کوئی انتظام فرما دیں بادشاہ نے ان کی درخواست منظور کرلی اور دو پہاڑوں کے ورے کو بند کردیا اور بس اب قرآن شریف کے الفاظ قابل غور ہیں کہ اس دیوار کی لمبائی بین الصدفین بتائی ہے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ میں جو درہ تھا اس کو بند کردیا اتنے سے وہ مفسد لوگ اس طرف آنے سے رک گئے اور رعایا سلطانی کو امن امان نصیب ہوا۔ تعجب ہے ایسی چھوٹی سی دیوار کی تلاش میں سید احمد خاں مرحوم چین کے ملک میں جا پہنچے اور تلاش کرتے کرتے ان کو دیوار عظیم (گریٹ وال) پر نظر جا پڑی جو لمبائی میں آٹھ سو کوس کے قریب ہے اور جوڑائی میں اتنی ہے کہ چھ گھوڑے سواری کے ساتھ اس پر سے گذر سکتے ہیں۔ اونچائی اس کی اوسطاً نصف میل کے برابر ہے جو پانچ سال میں بنائی گئی تھی۔ مگر قرآن شریف پر غور کرنے سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے پہاڑ کے دو طرفوں (صدفین) کے مابین کو بند کردیا اور کیا بھی ایسی عجلت میں کہ دورہ پر پھر رہا تھا اور بادشاہوں کا دورہ میں پانسال تک ایک جگہ ٹھیرے رہنا مستبعد امر ہے حالانکہ قرآن شریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے بعد تیاری کے اس دیوار کو خود ملاحظہ کیا بلکہ اس کے بننے کے زمانہ میں خود بنفس نفیس حاضر رہا اس لئے سرسید مرحوم کی تلاش افسوس کہ ” کوہ کندن و کاہ برآور دن“ سے زیادہ نہیں مختصر یہ کہ یہ دیوار ایک پہاڑی درہ کی بندش تھی جو پہاڑی سلسلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ ممکن ہے کہ مرور زمانہ سے گر کر تباہ ہوگئی ہو۔ باقاعدہ مجھ سے اجرت پائو میں تم میں اور ان مفسدوں میں ایک روک کردوں گا یہ کہہ کر اس نے حکم دیا کہ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لائو میں اس درے میں ان کو تہ بتہ لگا دوں چنانچہ انہوں نے تمام لوہا جمع کیا اور کاٹ کاٹ کر تہ بتہ لگاتے گئے ایک تہ لوہے کی اور ایک تہ کوئلوں یا لکڑی وغیرہ کی جگہ آگ لگ سکے حتی کہ جب اس نے درے کو پاٹ دیا ایسا کہ لوہے کی دیوار اس درے کے اوپر کے کناروں تک پہونچ گئی تو اس نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگا دو پس آگ لگائی گئی یہانتک کہ جب اس کو جلا جلاکر بالکل آگ کردیا تو اس نے کہا کہ لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں یعنی اس دیوار پر گلا ہوا تانبا ڈالدوں تاکہ یہ مضبوط ہو کر قابل سوراخ نہ رہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پس وہ یاجوج ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس میں سوراخ ہی کرسکے کیونکہ آخر وہ بھی آدمی ہی تھے معمولی ڈاکوؤں کی طرح ان کا طریق تھا یینس لوٹ گھسوٹ پر ان کا گذارہ تھا اور بس اس کا مل انتظام کو دیکھ کر ذوالقرینین نے بطور شکریہ اور انکسار کے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے گو یہ دیوار کیسی بڑی اور مستحکم ہے تاہم کچھ ایسی نہیں کہ قدرتی حملوں کو روک سکے پس جب میرے پروردگار کا حکم آئے گا ایک دم میں اس کو چکنا چور کر دے گا اور میرے پروردگار کا حکم بیشک ہو کر رہے گا چونکہ کسی چیز کو دوام نہیں تو پھر اس ناچیز دیوار کی کیا ہستی؟ (یاجوج ماجوج کی ماہیت کا بیان تو قرآن شریف میں نہیں آیا۔ البتہ اتنا آیا ہے کہ وہ مفسد قوم ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ یقول اللہ تعالیٰ یا ادم فیقول لبیک و سعدیک والخیر کلہ فی یدیک قال اخرج بعث النار قال وما بعث النار قال من کل الف تسعمائۃ وتسعاً و تسعین فعندہ یشیب الصغیر… قالوا یا رسول اللہ راینا ذلک الواحد قال ابشروا فان منکم رجلا ومن یاجوج وماجوج الف (الحدیث متفق علیہ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا اے آدم تو جہنم کے لائق جماعت تیار کر آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اے اللہ کتنے لوگ جہنم کے لائق ہیں ارشاد ہوگا ایک ہزار میں سے نو سو ننانویں وہ وقت بہت ہی سخت ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے صحابہ کرام نے عرض کیا حضرت ! بھلا وہ ایک ہم میں سے کون ہوگا؟ آنحضرت نے فرمایا تم خوش ہو کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک ہوگا۔ “ اس حدیث کے معنے قابل غور ہیں کہ مخاطبین میں سے ایک آدمی ناجی کے مقابلہ پر ایک ہزار یاجوج ماجوج فرمایا ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ ایک آدمی کون ہے مسلمان نیکو کار یا عام بنی آدم خواہ مومن ہو یا کافر؟ کچھ شک نہیں کہ اس جگہ صورت اولیٰ مراد ہے۔ یعنی ناجی صرف مسلمان نیکوکار ہوں گے اس زمانہ کے مسلمان ہوں یا گذشتہ زمانہ کے صالحین لوگ مراد ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان نجات یافتوں کے مقابل یاجوج ماجوج اگر کوئی اور قوم ہے جو ان دیکھی اور ان سنی ہے تو موجودہ گذشتہ کفار کس شمار میں ہوئے کیونکہ فی ہزار ایک ایماندار ناجی ہے اور باقی تعداد یاجوج ماجوج نے پوری کرنی ہے تو کفار۔ بت پرست۔ یہود و نصاریٰ کس شمار میں ہوئے۔ کیا ناجی گروہ میں ہیں؟ ہرگز نہیں (ان اللہ لا یغفر ان یشرک) اللہ شرک کبھی نہیں بخشے گا ناجی گروہ میں نہیں تو یاجوج ماجوج میں ہوں گے بے شک یہ صورت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج کل کے شمار سے کیا پہلے حساب سے بھی یہی ثابت ہوتا کہ ہے قلیل من عبادی الشکور (شکر گذار بندے بہت کم ہیں) کا ارشاد صحیح ہے چنانچہ اسی حدیث کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ ما انتم فی الناس الا کالشعرۃ السوداء فی جلد ثورا بیض او کشعرۃ بیضاء فی جلد ثورا سود (متفق علیہ) یعنی تم مسلمانوں کا شمار باقی لوگوں کے مقابلہ پر ایسا ہے جیسے ایک سیاہ بال سفید بیل کی پیٹھ پر یا سفید بال سیاہ بیل کی پیٹھ پر اس سے بھی نیکوکاروں کی کمی بتلانی مقصود ہے جو واقعی فی ہزار ایک کی تعداد کا حساب پورا بتلاتی ہے پس جب ایک کے مقابل پر یاجوج ماجوج ایک ہزار کے قریب یا پورے ایک ہزار ہوئے تو جہنم کی تعداد تو انہی سے پوری ہوگئی پھر اور کسی کیا حاجت ہوگی؟ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد وہی لوگ ہیں جو مفسد ہیں جو حضرات انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا خلاف کرتے ہیں چنانچہ سورۃ بقرہ کے شروع ہی میں مخالفین اسلام کو مفسد فرمایا ہے بلکہ مفسد کا بدوصف انہی میں حصر کردیا ہے ارشاد ہے الا انھم ھم المفسدون سنو ! وہی مفسد ہیں المفسدون معرف باللام ہے جو خبر متبدأ کی ہے علم معانی کا قاعدہ ہے کہ خبر معرف باللام سے حصر حاصل ہوتا ہے پس معنے اس جملے کے یہ ہوئے کہ فساد کے بد وصف کو مخالفنج اور معاندین اسلام میں حصر کردیا ہے اور یاجوج ماجوج کی تعریف بھی مفسدون کے لفظ ہی سے فرمائی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یاجوج ماجوج مخالفین اسلام ہی کا نام ہے خواہ کسی ملک کے باشندے اور کسی قوم کے ممبر ہوں۔ اب یہ سوال باقی ہے کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ اذا فتحت یاجوج وما جوج وھم من کل حدب ینسلون یعنی قریب قیامت یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے تو وہ ہر ایک بلندی سے نیچے کو آویں گے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج قریب قیامت کے آویں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان مخالفوں مفسدوں کی اس حالت کا بیان ہے جب ان کا نہایت غلبہ اور زور شور ہوگا جس زمانہ کی بابت حدیثوں میں آیا ہے لا یقال اللہ اللہ یعنی دنیا پر اللہ اللہ کہنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ کچھ شک نہیں کہ ایسے برے وقت میں یاجوج ماجوج یعنی مفسدوں کا بہت زور ہوگا اور وہی ہر ایک بلندی اور پستی پر متصرف اور قابض ہوں گے پس اس وقت قیامت قائم ہوجائے گی۔ رہا یہ سوال کہ یاجوج ماجوج اسم غیر منصرف ہے جس میں عجمیت اور علمیت ہے۔ سو واضح ہو کہ علمیت کبھی شخصی ہوتی ہے جیسے ابراہیم۔ اسماعیل وغیرہ اسماء میں ہے اور کبھی جنسی ہوتی ہے وہ بھی معتبر ہے جیسے ابوہریرہ کی ہریرہ میں۔ اگر علمی جنسی معتبر نہ ہو تو ابوہریرہ میں ہریرہ غیر منصرف نہ ہوتا حالانکہ اکثر اہل علم اس کو غیر منصرف پڑھتے ہیں۔ اسی طرح یاجوج ماجوج میں علم شخصی تو کوئی بھی نہ کہے گا البتہ علم جنسی ہے جو افساد کے وصف سے ان کو حاصل ہے اور علم جنسی یہی ہوتا ہے کہ مفہوم جنس کو ذہن میں متعین کر کے اس کے مقابلہ پر ایک نام تجویز کیا جاتا ہے گو اس کے افراد متغیر متبدل ہوں مگر جنس اس کی یعنی نوع عام قائم رہتی ہے علمیت کے لئے وہی کافی ہوتی ہے اسی طرح یاجوج ماجوج میں وصف افساد کو ملحوظ اور متعین کیا گیا ہے اسی لئے یہ اسماء غیر منصرف ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ یاجوج ماجوج دیوار کو چاٹ رہے ہیں بلکہ کسی قدر سوراخ اس میں انہوں نے کر بھی لیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قریب قیامت کے نکلیں گے اور اب وہ دیوار سے مسدود ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سابق میں چونکہ مفصل آچکا ہے کہ ایک آدمی ناجی اور نو سو ننانوے غیر ناجی ہوں گے پھر ان کی تقسیم بھی یوں کی ہے کہ ایک مومن اور ایک کم ہزار یاجوج ماجوج ہوں گے اس حدیث کو اس حدیث کے ساتھ ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں جو ان کے دیوار کو چاٹنے کا ذکر اور قریب قیامت کے نکلنے کا مذکور ہے اس سے مراد ان کی کثرت اور غلبہ ہے یعنی عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ شریر لوگ دنیا کے ہر حصے پر متصرف اور قابض ہوجائیں گے چنانچہ اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں کہ ویل للعرب من شرقد اقترب یعنی عرب کے لئے افسوس ہے کہ شر قریب آگیا ہے عرب کی خصوصیت ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ دین کے اعتبار سے ہے یعنی عربی دین (اسلام) پر افسوس کا وقت آنے والا ہے شریر لوگ اس پر بھی غلبہ پاویں گے یہ وہی وقت ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں فرمایا کہ لا یقال اللہ اللہ یعنی دناھ میں کوئی شخص اللہ اللہ کہنے والا بھی نہ رہے گا۔ مختصر یہ کہ سد سکندری ایک معمولی دو تین گز پہاڑی درہ کی بندش تھی جو اس وقت کے مفسدوں کے بند کرنے کو کافی تھی اور یاجوج ماجوج مفسد قوموں کا نام ہے جو قریب قیامت کے اللہ پرستوں پر غالب آن کر سب دنیا میں خرابی بپا کریں گی۔ اللھم احفظنا منہم اٰمین) اس دن یعنی جب یاجوج ماجوج پھر دنیا میں آئیں گے اس کی کثرت سے آئیں گے کہ ایک پر ایک ایسے گڈ مڈ ہوں گے کہ دریا کی موج کی طرح گھمسان ہوں گے اور دنیا پر از سر نو فساد برپا کریں گے قریب ہی اس دن سے صور میں پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوجائے گی پھر ہم (اللہ) سب کو ایک جگہ جمع کریں گے اور جہنم کافروں کے سامنے لاکھڑی کریں گے۔ کون کافر یا جن کی آنکھیں میری یاد دلانے والی چیزوں کے دیکھنے سے پردے میں ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ نہ آیات قدرت کو دیکھتے ہیں اور نہ آیات قرآنیہ کو سن سکتے ہیں صرف دنیاوی عیش و آرام میں منہمک ہیں جو کام کرتے ہیں صرف دنیا کی غرض سے کرتے ہیں اگر کوئی مذھبی کام کرتے ہیں تو بس یہ کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا ساجھی بناتے ہیں تو کیا ان کافروں نے یہی سمجھ رکھا ہے کہ میرے سوا میرے بندوں کو کارساز بنانا ان کے حق میں کوئی نیک کام اور بہتر ہے؟ ہرگز نہیں ہم نے ایسے نالائقوں اور کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے خواہ یہ دنیا میں کیسے ہی عزت کے مرتبہ پر ہوں اور مومنوں کو کیسا ہی ذلیل اور خسارہ میں جانیں تاہم یہ اسی لائق ہیں تو اے رسول ! ان سے کہہ کہ تم تو ہم مسلمانوں کو ایک ہی اللہ کی طرف ہو رہنے سے دنیاوی نقصانات میں جانتے ہو میں تم کو بتلائوں کہ بڑے ٹوٹے والے کون ہیں کن کی تجارت میں خسارہ ہے اور اس دنیا کی منڈی میں اپنا مال و اسباب ضائع کر کے خالی ہاتھ کون جائیں گے سنو وہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش ساری کی ساری دنیا ہی میں وہس گئی یعنی جو کام کرتے ہیں محض دنیا ہی کے فوائد کیلئے کرتے ہیں پھر طرفہ تر یہ کہ اسی میں منہمک ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے کام کرتے ہیں اتنا نہیں سوچتے کہ جس دنیا کے لئے ہم اتنی تگ و دو کررہے ہیں اس میں کتنی مدت ہمیں رہنے کی اجازت ہے آہ یہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ کسی کا کندہ نگینہ پہ نام ہوتا ہے کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے عجب سرا ہے یہ دنیا کہ جس میں شام و سحر کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے چونکہ یہ لوگ اپنے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں پس سچ سمجھو کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے حکموں اور اس کی ملاقات سے منکر ہیں بس ان کو اس کی پاداش یہ ملی ہے کہ ان کے نیک اعمال جو کچھ بھی انہوں نے کبھی کئے ہونگے سب کے سب ضائع اور اکارت جائیں گے پھر قیامت کے روز انکے لئے ہم کوئی وزن نہ کریں گے بالکل اس قابل ہی نہ ہوں گے کہ ان کو کسی شمار و قطار میں لیا جائے انکے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے ان کی سزا بس یہی جہنم ہوگی کیونکہ انہوں نے میرے (یعنی اللہ کے) حکموں سے انکار کیا اور میری آیتوں اور احکام اور رسولوں کو محض مخول ٹھٹھا سمجھے تھے بس یہی ان کی سزا ہوگی ہاں کچھ شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کے لئے اعلیٰ درجے کی جنت الفردوس کی نعمتیں اور آسائش مہمانی ہوگی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ایسی خوشی میں ہوں گے کہ اس جنت سے الگ ہونا نہیں چاہیں گے اگر ان کو یہ شبہ ہو کہ ہمیشہ ہمیشہ تک وہ کیا کھائیں گے اتنا رزق ان کو کہاں سے ملے گا تو تو کہہ کہ اگر سمندر بلکہ سات سمندر میرے پروردگار کے معلومات اور مقدورات کیلئے سیاہی بن جائیں اور تمام دنیا کے درخت قلم ہوجائیں اور ان سے اللہ کے کلمے یعنی اس کے معلومات اور مقدورات یعنی جن کاموں اور چیزوں پر وہ قادر ہے رکھے جائیں تو یہ سمندر ختم ہوجائے پہلے اس سے کہ میرے پوردگار کے معلومات اور مقدورات ختم ہوسکیں اگرچہ ہم اس جیسی اور مدد بھی لائیں چاہے سات سمندر بھی ملا دیں تو بس پھر کیا اندیشہ ہے جس پروردگار کی اتنی قدرت ہے اس سے کیا یہ بعید ہے کہ اہالی جنت کو دائمی رزق دے ہاں تو کہہ کسی بشر میں یہ طاقت نہیں پہلے میری ہی سنو ! کہ میں بھی تمہاری طرح ایک آدمی ہوں یعنی آدمیت کے وصف میں تم اور میں برابر ہیں رسالت کا درجہ الگ رہا جو صرف اتنا ہے کہ میری طرف الہام اور وحی پہونچتی ہے کہ تمہارا سب کا معبود برحق ایک ہی ہے اور کوئی نہیں پس جو کوئی اپنے پروردگار کی ملاقات کا امیدوار اور خواہشمند ہے وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنا دے یعنی ریاکاری نہ کرے اور شرک سے دور رہے۔ اللھم جنبنی وذریتی الشرک۔