سورة الكهف - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے [١۔ الف] بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔22) سب تعریفیں اللہ پاک کو ہیں جس نے اپنے بندے (حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کامل کتاب جس کا نام قرآن ہے نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کمی نہیں رکھی یعنی اس کے مضامین کی تکذیب کسی طرح نہیں ہوسکتی نہ واقعات گذشتہ اسکے مکالف ہیں نہ آئندہ کے سچے علوم اسکو جھٹلا سکتے ہیں۔ بالکل سیدھی اور صاف ہے اس لئے اتاری ہے تاکہ بندوں کو سخت عذاب سے جو اس پروردگار کیطرف سے بدکاروں پر آنے والا ہے پہلے ہی سے ڈرا دے اور خبردار کر دے کہ اگر تم ایسی ہی بد اعمالیاں کرتے رہے تو تمہاری خیر نہیں اور ایمانداروں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوش خبری دے کہ ان کے لئے نیک کاموں پر نیک بدلہ ہے وہ بدلہ ایسا نہیں ہوگا کہ چند روزہ اس میں رہیں پھر نکالے جائیں نہیں بلکہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور خوب مزے سے مہذبانہ عیش اڑائینگے اور اس کتاب کے اتارنے سے یہ بھی غرض ہے کہ بالخصوص ان لوگوں کو ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے حضرت عیسیٰ اس کا بیٹا اور فرشتے اسکی بیٹیاں ہیں یہ بات انکی محض جہالت سے ہے ان کو اور ان کے باپ دادا کو جن کے اثر صحبت سے یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں اس بات کا کچھ علم نہیں حقیقت میں بہت ہی بڑا بول انکے منہ سے نکلتا ہے ایسا جو سراسر جھوٹ ہے اور یہ محض جھوٹ کہتے ہیں مگر تو اے رسول ! ایسا تو ان پر شیفتہ ہے کہ ہر وقت تجھ کو انہی کی فکر پڑی ہے اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں گے تو شاید تو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالے گا۔ ایسی بھی کیا بات ہے ہر ایک شخص اپنے کام میں خود مختار ہے تجھے معلوم نہیں کہ جو کچھ زمین پر تر و خشک نظر آتا ہے ہم نے اسکو زمین کی سجاوٹ بنایا ہے اور بندوں کے لئے گذارہ تاکہ بندوں کو پرورش کریں اور ان کو احکام دیکر جانچیں کہ کون ان میں اچھے عمل کرتا ہے لیکن یہ جانچ صرف بغرض اظہار ہے نہ بغرض تحصیل علم پس جب ہم ان کے مالک اور حقیقی مربی ہو کر ان پر جبر نہیں کرتے تو تجھے کیا ایسی پڑی ہے کہ ان کے رنج میں ناحق ملول خاطر ہو رہا ہے آنحضرت کو کفار کے ایمان نہ لانے کا سخت حال و غم رہتا تھا اس پر یہ آیت اتری تھی (اسباب النزول) اور اس بات پر بھی دھیان نہیں دیتا کہ ایک نہ ایک روز ہم نے زمین کی تمام چیزیں فنا کر کے زمین کو چٹیل میدان کرنا ہے پس اس روز ہر ایک اپنے اعمال کا بدلہ پاوے گا باوجود یکہ دنیا کی ہر ایک چیز اللہ کی قدرت کی مظہر ہے تاہم یہ لوگ جب کبھی نیا قصہ سنتے ہیں تو اسی کو عجیب سمجھتے ہیں کاش کہ اصل مطلب (ہدایت) پر آویں دیکھو تو اصحاب کہف کا قصہ سن کر تجھ سے ان کی بابت دریافت کرتے ہیں تو بھی حیران ہے کہ کیا جواب دے کیا تو نے بھی یہی سمجھا ہے کہ غار والے یعنی اصحاب کہف اور کتبے یعنی تختیوں والے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہماری قدرت کے کاموں میں سے بہت ہی عجیب تر تھے گو انکی کیفیت اور زندگی بے شک قدرت الٰہی کا ایک کرشمہ تھی لیکن ایسی نہیں کہ بس اسی کی طرف توجہ لگ جائے سنو ! ہم تم کو انکا ماجریٰ سناتے ہیں مفصل تو آگے آتا ہے مجمل واقعہ وہ قابل ذکر ہے جب انہوں نے اپنے بھائی بندوں کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی اور دعا کی تھی کہ اے ! ہمارے پروردگار تو ہم پر اپنی جناب سے رحمت نازل فرما اور ہم کو ہمارے ارادے میں کامیابی کی سہل اور آسان راہ بتلا اور سامان مہیا فرما پس یہ کہہ کر وہ داخل غار ہوگئے تو ہم نے ان کو کئی سال غار میں سلائے رکھا پھر ہم نے ان کو جگایا کہ ہم دیکھ لیں یعنی ظاہر کردیں کہ دو گروہوں میں کس گروہ کو غار میں ان کے ٹھیرنے کی مدت خوب یاد ہے یعنی اہالی شہر خوب واقف ہیں یا وہ خود۔ (اصحاب الکہف : اس واقع کے متعلق مزید تفصیل کی نہ تو حاجت ہے نہ کہیں سے صحیح طور پر مل سکتی ہے کیونکہ جو بات قرآن و حدیث میں نہ ہو وہ کون بتلائے اور کون سمجھائے اس لئے جس قدر قرآن شریف میں آیا ہے اس سے زیادہ کہ نہ تو ہم کو ضرورت ہے نہ پتہ لگ سکتا مختصر بیان اس قصے کا یہ ہے کہ گذشتہ زمانہ میں چند ایک نوجوان تھے جن کو آج کل کے محاورے میں لبرل پارٹی کہنا چاہئے وہ اپنے جوش مذہبی کو تھام نہ سکے اور اپنے ملک اور برادری کو چھوڑ کر کہیں پہاڑوں میں جا چھپے یہاں وہ بہت مدت تک پڑے رہے مدت مدید کے بعد انہوں نے اپنے میں سے ایک کو شہر کی طرف بھیجا تو وہاں کیا تھا۔ رنگت ہی بالکل تبدیل تھی ؎ آں قدح بشکت واں ساقی نماند آخر کار وہ کسی قرینہ سے پہچانا گیا۔ مگر پھر بھی وہ ان سے کسی طرح حیلہ و حوالہ سے بچ کر اپنے ساتھیوں میں جا ملا جہاں پر متلاشی نہ پہنچ سکے۔ بس یہ ہے اختصار اس قصے کا۔ مطلب اس سے اس امر پر اطلاع دینا ہے کہ اللہ کے نیک بندے ہر زمانہ میں ہوتے رہے ہیں جو سوا اللہ کے کسی کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں تم کو بھی ایسا ہونا چاہئے۔ شان نزول اس کا یہ ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علہی وسلم سے یہ قصہ اور اس سے آئندہ ذوالقرنین کا قصہ دریافت کیا تھا۔ کیونکہ ان میں قوی روایت سے یہ قصے مشہور چلے آتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ اصحاب کہف اب کہاں ہیں؟ زندہ ہیں یا مردہ؟ تو اس سوال کا جواب دینے سے پہلے قرآن مجید پر غور کرنا ضروری ہے…کہ کیا قرآن میں ان کی دائمی زندگی کا ثبوت ہے؟ مجھے تو ان کی دائمی زندگی کا ثبوت قرآن شریف سے نہیں ملتا۔ صرف ایک آیت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں وَتَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّ ھْم رَقُوْدُ اس سے بھی دائمی زندگی کا ثبوت نہیں ہوتا۔ غائت سے غائت آنحضرت کے زمانہ تک ان کی زندگی کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال کے وقت فرمایا کہ جو لوگ اس وقت زمین پر زندہ ہیں سو سال تک ان میں سے کوئی زندہ نہ رہے گا اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ اصحاب کہف اگر اس وقت زندہ بھی تھے تو دوسری صدی ہجری میں ضرور ہی فوت ہوگئے ہوں گے۔ دوسری آیت اصحاب کہف کی دائمی زندگی پر شاید کوئی صاحب یہ پیش کریں کہ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا مگر اس کا ترجمہ حسب قاعدہ علم نحویہ ہے کہ ” اگر تو دیکھتا ان کو تو مارے خوف کے بھاگ جاتا اور تجھ میں خوف بھر جاتا‘ میرے نزدیک یہ دلیل بھی صحیح نہیں کیونکہ حرف لو ماضی کے لئے ہوتا ہے حال اور استقبال اس کے مفہوم میں نہیں اگر کسی مقام پر ہوتا ہے تو قرینہ خارجہ سے ہوتا ہے پس آیت موصوفہ سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ ہوا کہ قرآن شریف سے پہلے زمانہ ماضی ان کی زندگی تھی نہ زمانہ نزول قرآن میں نہ جب کہ اب تیرہ سو سال گزر چکے ہیں مختصر یہ کہ اصحاب کہف کسی پہاڑ کی غار میں چھپے تھے جہاں وہ ایک مدت تک بحکم الٰہی زندہ رہے لیکن آخر تابکے؟ اپنے وقت پر مر کر جاودانی زندگی میں جا پہنچے۔ (رض) ہاں یہ سوال قابل تحقیق ہے کہ اصحاب کہف کس زمانہ میں ہوئے ہیں اور کس نبی کے پیرو تھے اس کے متعلق بھی گو قطعی فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کیونکہ ایک زمانہ گذشتہ کا واقعہ ہے جس کا ثبوت نہ چشم دید ہے نہ صاحب وحی سے کوئی روائت آئی ہے البتہ مؤرخین کی بعض رائیں اور قیاسات ہیں پس مؤرخین کے صحیح قول کے مطابق اصحاب کہف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں تھے اور اصل تعلیم عیسوی کے مطابق توحید خالص ان کا دین تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تخمینا دو سو پچاس برس بعد دقینوس یادیسس بادشاہ کے عہد میں ہوئے ہیں جو بت پرست تھا اور ان کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنا تھا جس سے تنگ آکر وہ ہجرت کر گئے۔ والعلم عنداللہ) یہ تو ہے مجمل بیان انکے قصے کا اب ذرہ تفصیل سے سنو ! ہم تجھے ان کا ٹھیک ٹھیک حال سناتے ہیں وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے بھی ان کو ہدایت زیادہ دی تھی جیسے ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اس کو توفیق خیر مزید ملتی ہے اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا تھا کہ معمولی اناپ شناپ اعتراضوں سے وہ کانپتے نہ تھے جب ان کو بادشاہ نے اپنے حضور میں طلب کیا اور اپنے لئے سجدہ کرنے کو حکم دیا تو وہ مجلس سے اٹھ گئے اور بولے کہ ہم تو اس فعل مذموم کے ہر گزمرتکب نہ ہوں گے کیونکہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو تمام آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے اس لئے ہم اللہ کے سوا کسی معبود کو نہ پکاریں گے ورنہ ہم بھی اس بیہودہ گوئی کے جو یہ لوگ اللہ کی نسبت کر رہے ہیں مرتکب ہوں گے ان ہمارے قومی بھائیوں نے جو اس اللہ حقیقی معبود کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں کیوں ان پر کوئی کھلی دلیل پیش نہیں کرتے جس سے ثابت ہوسکے کہ اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہیں پھر جو بےدلیل اور من گھڑت اللہ پر جھوٹا افترا کرے اور ایسے مسائل اور عقائد بتلا دے جو اللہ نے نہیں بتلائے تو اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جیسے یہ مشرک جو اللہ پر افترا کرتے ہیں اور غلط گوئی کرتے ہیں۔ یہ تقریر مجلس میں کر کے چلے گئے اور جا کر آپس میں انہوں نے قرار داد کی کہ جب تم ان مشرکوں سے اور اللہ کے سوا‘ ان کے مصنوعی معبودوں سے علیحدہ ہوچکے ہو تو پس اب کیا دیر ہے چلو غار میں بیٹھ رہو۔ اللہ پر بھروسہ کرو تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارا مشکل کام آسان کر دے گا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ غار میں جو ان کے شہر سے قریب تھی جا چھپے ایسی جگہ چھپے کہ سورج کو چڑھتے ہوئے تو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ انکی غار سے دائیں طرف کو ہوتا ہے اور جب غروب ہونے کو ہوتا ہے تو بائیں جانب کو کترا جاتا ہے اور وہ اسی غار کے اندر ایک کشادہ جگہ میں ہیں یہ اللہ کی قدرت کے نشان ہیں کہ ایسی گمراہ قوم میں بھی ایسے پاکیزہ خیال نیک طینت پیدا کردیتا ہے اصل بات پوچھو تو یہ ہے کہ جس کو اللہ ہدایت کرے۔ اور توفیق خیر بخشے وہی راہ یاب ہوتا ہے اور جس کو اس کی شامت اعمال سے گمراہ کر دے پس تو ہرگز اس کے لئے کوئی کارساز اور راہ نما نہ پائے گا کہ اس کی راہ نمائی کرے بلکہ وہی مضمون ہوگا جو شیخ سعدی مرحوم کے شعر کا مطلب ہے عزیز یکہ ازد گہش سر بتاخت بہدر کہ شد ہیچ عزت نیافت اور اللہ کی قدرت دیکھ کہ اگر تو ان کو دیکھتا تو گمان کرتا کہ یہ جاگتے ہیں حالانکہ وہ سوتے تھے آنکھیں انکی کھلی تھیں جیسے جاگنے والوں کی ہوتی ہیں اور ہم انکے پہلو دائیں اور بائیں کو پھیرتے تھے اور انکا کتا جو شہر سے چلتے وقت انکے ساتھ ہولیا تھا اس غار کی چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا جیسی عموما کتوں کی عادت ہے ان کی ہئیت ایسی ہیبت ناک تھی کہ اگر تو ان کو دیکھ لیتا تو بھاگتا ہوا واپس پھر آتا اور تجھ میں انکی دہشت بھر جاتی غرض وہ اسی طرح سالہا سال سوتے رہے پھر وہ اٹھے اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں چنانچہ ان میں سے ایک نے دوسروں سے کہا کیوں صاحب ! کتنی دیر تم غار میں رہے وہ بولے کہ شاید ایک آدھ روز رہے ہیں مگر بعد غور و فکر جب ان کو اس میں تردد ہوا کہ اتنا تغیر حال جو ہم میں ہوا ہے اتنی جلدی نہیں ہوسکتا آخر سب نے کہا کہ میاں اس بات کو تو اللہ کی سپرد کرو تمہارا پروردگار تمہارے ٹھیرنے کی مدت کو خوب جانتا ہے پس تم اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی کا ٹکرا جو ہماے پاس ہے دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ غور کرے کہ ان شہر والوں میں سے کس کا کھانا ستھرا ہے پس اس سے کچھ کھانے کی چیز تمہارے پاس لے آوے اور اتنی بات اسے سمجھا دو کہ کسی سے تکرار نہ کرے بلکہ گفتگو میں بڑی نرمی کرے اور تمہارے حال پر کسی کو اطلاع نہ دے کیونکہ اگر وہ شہر والے تمہارے حال پر مطلع ہوگئے تو چونکہ تم ان سے بھاگ کر آئے ہو بادشاہ تم پر سخت ناراض ہے ضرور تمکو پتھرائو کر ڈالیں گے یا زور آور دھمکی سے تم کو اپنے باطل مذہب شرک و کفر میں واپس لے جاویں گے جو موت سے بھی زیادہ ہم ناگوار ہے اور تم ناحق ہمیشہ کے عذاب میں پھنسو گے اور کبھی بھی رہا نہ ہو گے یہ پیش بندیاں ان کی اس خیال پر تھیں کہ انہوں نے سمجھا تھا۔ کہ ہنوز وہ بادشاہ اور رعایا بدستور زندہ ہیں مگر انکو کیا معلوم تھا کہ آن قدح بشکست واں ساقی نماند اس لئے جیسا ہم نے کسی حکمت سے ان کو سلایا تھا۔ اسی طرح ہم نے شہر والوں کو ان پر کسی طرح مطلع کرا دیا کیونکہ اب وہ ظالمانہ زمانہ نہ تھا بلکہ عموما لوگ ان کے مداح تھے یہ اس لئے کیا کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی حمایت اور حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ بھی یقینا جان جائیں کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں یہ اطلاع ان کو اس وقت کرائی گئی تھی جب وہ لوگ شہر والے اپنے کام میں آپس میں جھگڑتے تھے کہتے تھے کہ ان پر ایک دیوار بنا دو تاکہ انکی غار کیطرف کوئی نہ جائے نہ انکو دیکھے حالانکہ انکا پروردگار ان کے حال سے خوب واقف تھا کہ آئندہ کو ان کے ساتھ کیا ہوگا جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے یعنی جو حکومت پر قابو یا فتہ تھے انہوں نے کہا ہم تو ان پر یعنی ان کی نماز پر ایک مسجد بنادیں گے تاکہ لوگ انکے مذہب کے مطابق اللہ کی عبادت اس میں کریں پھر یہ کام انہوں نے کیا یا نہیں اللہ کو معلوم ہے یہ لوگ یہودی یا عیسائی اگر دعویٰ کریں تو غلط ہے ان کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ انکی گنتی کیا تھی بعض اہل کتاب کہیں گے کہ تین کس تھے چوتھا ان میں ان کا کتا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہ پانچ کس تھے چھٹا ان کا کتا تھا مگر یہ ساری گفتگو اور خیال ان کا بالکل رجما بالغیب اور اٹکل پچو ہے اس بات پر ان کو کوئی واقعی علم نہیں بعض کہتے ہیں وہ سات کس تھے آٹھواں ان کا کتا تھا تو ان سے کہہ کہ تمہیں کیا پڑی ہے؟ کتنے بھی ہوں اس قصے کو چھوڑو میرا پروردگار انکے شمار کو خوب جانتا ہے ان کے شمار کو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں پس چونکہ اصل مطلب اس مضمون سے یہ ہے کہ لوگ ان کی روش اختیار کریں گنتی انکی دو ہو یا چار پانچ ہو یا سات اس پر کیا امر موقوف ہے پس تو اے رسول انکی شان میں کسی سے تکرار نہ کرنا مگر جو کبھی ذکر آجاوے تو سرسری طور پر گفتگو سے بڑھ کر کرنا اور بوجہ ایک دو راز کار بات ہونے کے اس امر کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی بابت کسی سے دریافت بھی نہ کرنا