إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے [٩٣] منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو
(90۔111) اللہ تم کو ہر ایک امر میں انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اپنا معاملہ ہو یا بیگانہ۔ اللہ کی نسبت کوئی خیال یا عقیدہ ہو یا مخلوق کے ساتھ کاروبار غرض ہر ایک امر میں عدل کرو عدل کے معنے بھی سن لو کہ وضع الشی فی محلہ یعنی ہر ایک شئے کو اصلی ٹھکانے پر رکھنے کا نام عدل ہے جو کچھ کسی کے حق حقوق میں ان کو پورا پورا ادا کرنا عدل ہے پس وہ عدل کا اور ہر ایک کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیتا ہے اور قرابت داروں کو حسب مقدور دینے کا یعنی اگر کسی کے قریبی رشتہ دار تنگ ہوں اور وہ آسودہ ہو تو ان سے حسب حیثیت سلوک کرے اور بے حیائی یعنی زنا اور متعلقات زنا اور ناجائز حرکات سے اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے اس امر کا تم کو ایسی نیک باتیں سنا کر نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور اگر صاف لفظوں میں سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ کے نام سے جب تم عہد و پیمان کرو تو پورے کیا کرو اور قسموں کو کسی حال میں خصوصاً بعد تاکید مزید کرنے کے تو بالکل نہ توڑا کرو کیسی شرم کی بات ہے کہ مضبوط عہد باندھ کر بھی توڑ دیتے ہو حالانکہ اللہ کو تم نے اپنا ضامن ٹھہرایا ہوتا ہے کہ ہم ہرگز ہرگز اس کے خلاف نہ کریں گے اس عہد شکنی میں گو تم تو ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہو گے اور ہر ایک اپنے آپکو اس الزام سے بری کرتا ہے مگر اللہ کے نزدیک کوئی امر مخفی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے اس سے کوئی امر پوشیدہ نہیں پس اس امر کا لحاظ رکھو اور اس دیوانی عورت کی طرح نہ بنو جو بڑی محنت سے تمام دن سوت کات کر شام کو کا تے پیچھے اپنا سوت ٹکڑے کردیتی ہے یعنی ذرا سی بات پر مدتوں کی دوستی اور عہد و پیمان نہ بھول جایا کرو بقول ” کدو کی دوستی یکدم میں توری“ تم اس مطلب کے لئے اپنی قسموں کو آپس میں فریب بازی کا ذریعہ بناتے ہو اس لئے کہ کوئی قوم دوسروں سے مال و دولت میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو تم اس سے عہد و پیمان کر کے ان کے حلیف بن جاتے ہو اور جب گردش زمانہ سے ان کے عروج میں فرق آجاتا ہے تو جھٹ سے تم دوسروں سے خواہ ان کے دشمن ہی ہوں دوستی کے عہد و پیمان کرلیتے ہو سنو ! اور دل لگا کر سنو ! اللہ تم کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ اپنے معاہدوں کو پورا کرو اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو قیامت کے دن تم کو بتلا دے گا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان کی اس جہالت سے مضطرب نہ ہو اور سن کہ اگر اللہ چاہتا تو تم سب لوگوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا کیا ممکن تھا کہ اس کے چاہے کو کوئی روک سکتا لیکن وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے مگر اس کا چاہنا ظالمانہ نہیں بلکہ اس کا چاہنا اس کے قانون کا نام ہے پس جو لوگ اس کے انتظام اور قانون فطرت کے مطابق نیک راہ کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو ہدایت میسر ہوجاتی ہے اور جو بدراہی پر جاتے ہیں۔ ان کو گمراہی نصیب ہوتی ہے چنانچہ پہلے بھی کئی دفعہ بتلایا جا چکا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے تم کو سوال ہوگا کہ کیوں ایسا کام کیا پس بہتر ہے کہ تم بدکاریوں کو ابھی سے چھوڑ دو اور اپنی قسموں کو آپس میں فریب کرنے کا بہانہ نہ بنایا کرو ورنہ مضبوط ہونے کے بعد قدم اکھڑ جائیں گے یعنی جن لوگوں سے تم نے عہد مضبوط کیا ہوگا جب وہ تمہاری اس قسم کی بددیانتی سنیں گے تو وہ بھی پھسل جائیں گے اور بوجہ اس کے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا تم کو دنیا ہی میں تکلیف پہنچے گی کہ تمہارا کوئی حمائتی نہ رہے گا اور آخرت میں بھی تم کو بڑا عذاب ہوگا۔ یعنی تم جو مسلمان ہو کر کوئی برا کام بددیانتی یا شرارت کا کر گذرو گے تو جن لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیم اور مسلمانوں کے ذاتی افعال میں تمیز نہیں تمہارے برے کاموں کو دین ہی سمجھیں گے اور ایسی بدعہدی کی وجہ سے اسلام سے نفرت کر جائیں گے اس کا وبال بھی تم پر ہوگا پس تم ایسے کاموں سے جن سے عوام میں اسلام سے نفرت پھیلے یا پھیلنے کا احتمال ہو پرہیز کیا کرو اور دنیا کے تھوڑے سے مال کے بدلے اللہ کے نام سے وعدہ کیا ہوا نہ بدلا کرو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس تمہارا نیک اجر ہے وہ سب سے بہتر اور اچھا ہے ( راقم کہتا ہے ایام محرم میں تعزیہ بنانا بھی اسی قسم سے ہے کفار کے ذہن نشین ہو رہا ہے کہ اسلام کی تعلیم ایسی ہی ہے جس کا یہ نمونہ ہے۔ تعزیوں کو تو ایسی شان و شوکت سے لے جانا کہ باجے گاجے آتشبازی روشنی وغیرہ کے سب سامان موجود ہیں ذوالجناح (دلدل) امام حسین (علیہ السلام) کے آگے آگے ایسی طرز اور انداز سے رونا اور اپنے آپ کو زنجیروں اور مہلک چیزوں سے مارنا کہ اللہ کی پناہ ہر ایک شخص ان حرکات سے یہ سمجھتا ہے کہ اسلام یہی ہے تو ایسے اسلام میں داخل ہو کر کیا فائدہ۔ اسی لئے جن علماء نے اس نکتہ کو سمجھا ہے ان کو چین نہیں آتی جب تک وہ تعزیہ کا ردنہ کرلیں اللہ رحم کرے اس شخص پر جو ایسے مفاسد کی بیخ کنی میں کوشش کرے یا مخالفت کرنے والوں کی امداد کرے۔ راقم کہتا ہے کہ آج کل کے بادشاہ خصوصاً مہذب یورپ کی متمدن سلطنتیں اس قسم کا نمونہ ہیں۔) اگر تم کو کچھ علم ہے تو اس پر غور کرو کیونکہ جو کچھ تمہارے پاس حلال یا حرام ہے وہ تو ضائع ہونے کو ہے اور جو نیک کاموں کا بدلہ اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے کبھی فنا نہ ہوگا پس فانی کے پیچھے پڑ کر باقی کو ترک کردینا کیا عقل کی بات ہے پس تم عقل سے کام لو اور دل سے جان رکھو کہ ہم ثابت قدمی سے صبر کرنے والوں کو ان کے کاموں کا بہت اچھا بدلہ دیں گے کیونکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی ایماندار ہو کر نیک عمل کرے محض دنیاوی لحاظ و ملاحظہ سے نہیں بلکہ خالص ایمانداری سے نیک عمل کرے پھر خواہ وہ مرد ہو یا عورت کسی قوم کا ہو تو ہم ان کو پاکیزہ زندگی دیں گے جس میں وہ کسی کدورت سے مکدر اور کسی تکلیف اور بلا میں مبتلا نہ ہوں گے غرض بہمہ وجوہ عافیت سے رہیں گے اور ہم ان کو محض اپنے فضل سے ان کے کاموں سے بھی اچھا بدلہ دیں گے باوجود اس انعام اور اکرام کے دنیا کے لوگ جو اس طرف نہیں جھکتے ظاہری سبب اس کا تو یہ ہے کہ کم عقل لوگ غائب از آنکھ کی قدر نہیں کرتے مگر باطنی وجہ اس کی یہ ہے کہ شیطان کا ان لوگوں پر غلبہ ہے جب تک اس کا دفعیہ نہ ہو اصلاح مشکل ہے اس کے دفعیہ کی ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب برا خیال آئے تو اعوذ باللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے پس تو بھی جب قرآن پڑھنا چاہے تو شیطان مردود کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ لیا کر کیونکہ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں ان پر اس کا کسی طرح سے زور نہیں چل سکتا اس کا زور تو بس انہی لوگوں پر ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس کی تعلیم کے سبب سے شرک کرتے ہیں شیطانی غلبہ کے کئی ایک آثار ہیں۔ جہالت سے اہل حق کے ساتھ مباحثہ کرنا سچی تعلیم پا کر عناد سے اس کا مقابلہ کرنا چنانچہ یہ لوگ کرتے ہیں کیسی جہالت کی بات ہے کہ بغیر کسی دلیل کے قرآن کا مقابلہ کرتے ہیں اور جب ہم کوئی حکم کسی حکم کے قائم مقام نازل کرتے ہیں یعنی جس حکم کی برداشت لوگ بوجہ موانع نہ کرسکتے ہوں تو اس کا عارضی قائم مقام ان کو بتلا دیا جاتا ہے جیسے بیماری کی وجہ سے وضو نہ کرنے والوں کو تیمم کا حکم دیا جاتا ہے اور اللہ جو کچھ نازل کرتا ہے اسے تو خوب معلوم ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے اور بندوں کی حاجتیں بھی اسے معلوم ہیں انہی کے مطابق وہ حکم بھیجتا ہے مگر یہ لوگ نادانی یا عناد سے کہنے لگتے ہیں کہ بس تو مفتری ہے من گھڑت جو چاہتا ہے کہہ دیتا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سے ان میں سے اسرار شریعت اور رموز طریقت کو جانتے نہیں تو ان سے کہہ اس قرآن کو تو جبرائلن جیسے شاہ زور اور پاک باطن فرشتے نے اللہ کے حکم سے سچی تعلیم کے ساتھ بھرپور اتارا ہے تاکہ ایمانداروں کو ایمان پر ثابت قدم کرے اور مسلمانوں کے لئے جو اس کی تعلیم پر عمل کریں ہدایت اور بشارت ہے ہم (اللہ) جانتے ہیں جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول کو ایک آدمی قرآن سکھاتا ہے جھک مارتے ہیں اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جس شخص کی نسبت ان کو بدگمانی ہے اس کی زبان تو عجمی ہے اور عربی اسے صاف آتی نہیں اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان ہے اصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکموں پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اپنی ہوائو ہوس کے تابع ہو رہتے ہیں اللہ بھی ان کو کسی نیک کام کی ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے دکھ کی مار ہے کفار تجھے مفتری کہتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ جھوٹ کا افترا تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ کے حکموں پر ایمان نہیں رکھتے لیکن جن کو اللہ مالک الملک پر ایمان ہے ان سے کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ پر افترا کریں کیونکہ ان کا ایمان ان کو اس جرأت کی اجازت نہیں دیتا لیکن جو بے ایمان ہیں اللہ پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ محض اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں وہی اللہ پر افترا کرتے ہیں اور وہی جھوٹے ہیں پس یاد رکھو جو لوگ ایمان کی بات پہنچنے سے پیچھے اللہ کے حکموں سے جی کھول کر کفر کریں گے ان پر اللہ کا غضب ہے۔ ( اس آیت نے بین طور پر فیصلہ کردیا ہے کہ جس شخص کی اخبار غیبیہ جھوٹی ہوں یعنی ان کی پیشگوئیاں غلط نکلیں تو سمجھا جائے گا کہ اسے اللہ پر ایمان نہیں اس لئے ہم مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئیوں کی پڑتال چاہتے ہیں چنانچہ اس موضوع پر ہمارا ایک رسالہ موسوم بہ ” الہامات مرزا“ بھی ہے غرض یہ ہے کہ ہمارے ناظرین اس آیت کے حکم کے مطابق مرزا کے بارے میں صرف اس کی پیشگوئیوں کی پڑتال کیا کریں۔ مگر ہمارا رسالہ ” الہامات مرزا“ پیش نظر رکھ کر دیگر جزئیات سے فیصلہ نہ ہوگا فیصلہ صرف اسی پہلو سے ہوگا اگر اس کی پیشگوئیاں صادق ہوں تو وہ بھی صادق مصدوق اگر کاذب تو وہ بھی علیٰ ہذا یہ اصول آیت قرآنی کے ثبوت کے علاوہ خود اسے بھی مسلم ہے دیکھو ازالہ ص ٥٥٣۔ ١٢ منہ ایک رومی عیسائی غلام کی طرف بدگمانی کر کے کہتے تھے کہ یہ غلام حضرت کو سکھاتا ہے۔ ١٢) اور نیز ان کو بہت بڑا عذاب ہوگا ہاں جو کسی زبردست طاقتور کے ہاتھ سے کفر بکنے پر مجبور کیا جائے مگر دل اس کا ایمان پر مضبوط ہو اس میں بالکل کفر کی ہوا نہ پہنچی ہو تو اس شخص سے مواخذہ نہ ہوگا لیکن جو دانستہ اپنے اختیار سے جی کھول کر کفر اختیار کریں انہی پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کو دکھ کی مار ہوگی۔ یہ عذاب اس لئے ہوگا کہ دنیا کو آخرت سے زیادہ پسند کرتے ہیں اگر زیادہ پسند نہ کرتے ہوتے اور اللہ کا خوف ان کے دل میں ہوتا تو کیوں ایسی بے ہودہ گوئی اور لغو حرکات کے مرتکب ہوتے کیوں صرف چند روپے ماہوار کی تنخواہ پر اسلام کو خیرباد کہتے جیسے آج کل کے مرتد آریہ اور پادری اور یہ اس لئے عذاب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسی کافروں کی قوم کو ہدائت نہیں کیا کرتا جو لوگ دانستہ اللہ کے حکموں سے بے پروائی اور استغنا کرتے ہیں اللہ بھی ان سے مستغنی ہوجاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی لوگوں کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر اللہ نے مہر کردی ہے ان کے ان ذرائع کو خیر سے بالکل مسدود کردیا ہے اور یہی لوگ آخرت کی بھلائی سے غافل ہیں کچھ شک نہیں یہی لوگ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں اور جن لوگوں نے کافروں سے دکھ اٹھانے کے بعد اپنے وطن چھوڑے اور اللہ کی راہ میں بوقت مناسب جہاد کئے اور تکلیفوں پر بڑی متانت سے صبر کرتے رہے کچھ شک نہیں کہ تیرا پروردگار ایسے واقعات کے بعد ان کو بالکل معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے کس روز بخشے گا؟ جس روز ہر ذی نفس کو اپنے ہی لالے پڑے ہوں گے اپنے ہی لئے جھگڑے گا دوسرے کی اسے کوئی فکر نہ ہوگی اور جو کچھ کسی نے کمایا ہوگا اس کو پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اور کسی طرح سے ان پر ظلم نہ ہوگا کہ ان کے نیک کاموں کو کم کیا جاوے اور بدیوں کو زیادہ ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی شان اور الوہیت کے خلاف ہے