سورة الحجر - آیت 51

وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز آپ انھیں ابراہیم کے مہمانوں [٢٨] کا حال بتائیے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(51۔84) اور ان کو یہ بھی سنا کہ میرے بندوں سے کوئی بھی اس رتبہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ مخلوق کے نیک و بد کا اختیار اسے ملا ہو اور نہ آئندہ کی خبر سے بن بتلائے اسے اطلاع ہوسکتی ہے اس امر کی تصدیق کے لئے ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا جو دراصل فرشتے تھے اور انسان کی صورت میں بشکل مہمان اس کے پاس پہنچے تھے حال سنا کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے حسب دستور سلام کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو جواب دیا اور بٹھا کر ان کے لئے کھانا منگایا مگر انہوں نے کھانے کو ہاتھ نہ بڑھائے تو ابراہیم نے کہا ہمیں تم سے خوف لگتا ہے کیا تم کسی مخفی عداوت کے لئے تو نہیں آئے کہ کھانا نہیں کھاتے ہو انہوں نے کہا ابراہیم ( علیہ السلام) ! خوف مت کر اور اپنا خیال اور ارادہ ظاہر کیا مگر قبل از اظہار ابراہیم کو کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا کیونکہ وہ غیب دان نہ تھا۔ فرشتوں نے بعد تسلی دینے کے ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ بھی کہا کہ ہم اللہ کی طرف سے تجھے ایک بڑے ذی علم لڑے اسحق کی خوشخبری دیتے ہیں کہ اللہ تجھے ایک بچہ عنایت کرے گا ابراہیم مارے خوشی کے جامہ میں نہ سمایا بولا ہیں ! کیا تم مجھے اس بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری سناتے ہو یہ تو بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے پس تم ذرہ تفصیل سے کہو کہ کس چیز کی مجھے خوشخبری دیتے ہو وہ بولے ابراہیم ! ہم ادائے مطلب میں نہیں بھولے ہم نے تجھے سچی خوشخبری سنائی ہے پس تو اللہ سے بے امید مت ہو اللہ تجھے ضرور لڑکا دے گا اس کے آگے یہ امر محال نہیں یہ سن کر ابراہیم ( علیہ السلام) کے دل پر ایک چوٹ لگی اور اللہ کی قدرت اور عظمت نے اسے دل پر احاطہ کرلیا بولا پروردگار کی رحمت سے بجز گمراہ لوگوں کے کوئی بھی بے امید نہیں ہوتا یعی اللہ کی رحمت سے بے امید ہونا سراسر گمراہی اور جہالت ہے میں اس کی رحمت سے بے امید نہیں وہ چاہے تو ایک نہیں ایک سو دے دے مجھے تو صرف اپنے حال پر نظر ہے کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں کہ ہل سکوں اور میری عورت بھی بانجھ ہے لیکن اگر یہ بشارت اللہ کی طرف سے ہے تو مجھے اس کے کرید سے کیا مطلب جب اس نے خوشخبری دے دی تو اسباب بھی پیدا کر دے گا کیونکہ کار ساز ما بفکر کارما فکر ما درکار ما آزار ما خیر اس گفتگو کے بعد ابراہیم نے کہا اے اللہ کے رسولو ! تمہارا دنیا پر کیا کام ہے کہ تم غیر معمولی طور سے آج جمع ہو کر آئے ہو۔ وہ بولے ہم تو اس بدکار قوم یعنی لوطیوں کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ اسے تباہ کریں مگر لوط کے اتباع جتنے ہوں گے سب کو ہم بچا لیں گے البتہ اس کی عورت رہے گی جسے عذاب میں پیچھے رہنے والوں میں ہم نے تاک رکھا ہے یعنی اللہ کی طرف سے ہمیں اس امر کی اطلاع ملی ہوئی ہے کہ اس کی عورت ضرور اس ہدایت کی جو لوط کو اس بارے میں کی جائے گی مخالفت کرے گی پھر جب اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے جو ان لڑکوں کی صورت میں لوط اور لوط کے خاندان کے پاس پہنچے تو بوجہ عدم تعارف اور لاعلمی کے لوط نے کہا تم تو اجنبی قوم کے ہو میں نے اس سے پہلے تم کو نہیں دیکھا انہوں نے کہا ہم تیرے پاس وہ چیز لائے ہیں جس میں تیری قوم کو شک اور انکار ہے یعنی ہم تیرے پاس سچا حکم جو ٹلنے والا نہیں لے کر آئے ہیں اور ہم اس دعویٰ اور خبر دینے میں بالکل سچے ہیں۔ پس تو رات ہی سے اپنے اہل و عیال اور اتباع کو لے کر نکل جائیو اور تو خود ان کے پیچھے ان کی نگرانی کرتے ہوئے چلیو اور تم میں سے کوئی بھی پھر کر نہ دیکھے کہ کفار سے کیا معاملہ پیش آیا ورنہ دہشت سے تم کو بھی تکلیف ہوگی اور جہاں کا تم کو حکم ہوتا ہے چلے جائیو چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور ہم (اللہ) نے لوط کو اس امر سے اطلاع دی کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ بنیاد کاٹ دی جائے گی یہ ہے خلاصہ اور اجمال لوط کی قوم کے قصے کا۔ مفصل ان کی شرارت اور بدذاتی سننی چاہو تو سنو ! کہ فرشتے تو لوط کے گھر میں امرد لڑکوں کی شکل میں داخل ہوئے اور شہر والے جن کو اس بدکاری (بچہ بازی) کی عادت قبیحہ تھی خوشی کرتے ہوئے لوط کے پاس آموجود ہوئے اور ہنسی مخول اڑانے لگے اور لوط سے درخواست کی کہ یہ لڑکے ہم کو دے دیجئے لوط نے کہا کم بختو ! یہ میرے مہمان ہیں مہمان کی عزت کرنی اللہ کا حکم ہے تمہیں شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسی درخواست کرتے ہو جس میں اللہ کی بے فرمانی کے علاوہ دنیاوی ذلت بھی ہے پس تم ایسی درخواست سے مجھے ذلیل نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنی مستی میں منہمک تھے حضرت لوط کی نصیحت کا ان کو کوئی اثر نہ ہوا بڑی تیزی سے بولے کہ ہم نے تمام دنیا کے لوگوں کی دعوتوں اور مہمانیوں سے تجھے منع نہیں کیا ہوا کہ اس بہانے سے تو ہمارا شکار کھو دیتا ہے اور عموماً مسافر جن کے ساتھ خوش شکل لڑکے ہوتے ہیں تیری پناہ میں آجاتے ہیں اور تو ان کو فوراً اپنے گھر میں جگہ دے دیتا ہے اسی لئے اس سے پہلے بھی کئی دفعہ تجھ کو اس حرکت سے منع کیا تھا مگر چونکہ تو باز نہیں آتا اس کا علاج یہی ہے کہ آج ہم تیرا لحاظ بھی بالائے طاق رکھیں گے اور اپنا شکار لے جائیں گے لوط نے جب ان کا سخت اصرار دیکھا تو عاجزانہ لہجہ میں بدمعاشوں کے لیڈروں اور سرداروں سے کہا کہ اگر تم کو کچھ کرنا ہی ہے یعنی بغیر شہوت نکالنے کے تم نہیں رہ سکتے تو یہ میری لڑکیاں موجود ہیں اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو ان سے باقاعدہ عقد کرلو میں ابھی تمہارے حوالے کردیتا ہوں مگر وہ کہاں مانتے تھے تیری جان کی قسم وہ تو اپنی مستی میں جھوم رہے تھے وہ کسی کی کب سنتے تھے گو وہ اللہ کی پکڑ سے غافل تھے مگر اللہ تو ان کے اعمال سے بے خبر نہ تھا فرشتوں نے جب لوط کو مجبور دیکھا کہ اس کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہوئی تو آخر راز ظاہر کردیا کہ لوط ! ہٹ جا دروازہ چھوڑ دے یہ کبھی بھی تیرے پاس نہ پہنچ سکیں گے پس صبح کی روشنی ہوتے ہی ایک زور دار چیخ نے ان کو ہلاک کردیا کہ اس آواز سے ان کے دماغ اور جگر پھٹ گئے پھر ہم نے اس بیت کی اوپر کی طرف نیچے کردی یعنی جتنے مکان بلند تھے اور ان کے نیچے لوگ سوتے تھے سب گرادئیے اور جو جنگلوں میں سوتے تھے ان پر کھنگروں کی قسم کے پتھر برسائے غرض سب کے سب ہلاک کر دئیے بے شک اس قصے میں سمجھداروں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں کہ وہ اس سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جوز جو اور تحقیق لوطیوں کی بستی ان عربیوں کے سفر شام کی سیدھی راہ میں نظر آتی ہے بے شک اس میں اب بھی ایمانداروں کے لئے کئی ایک ہدایت کے نشان ہیں اور شعیب کی قوم بن والے جن کا گذر اوقات عموماً جنگلوں میں تھا بے شک وہ بھی نبیوں کی تکذیب کرنے سے اللہ کے نزدیک ظالم تھے پس ہم نے ان سے بھی انتقام لیا کہ آخر کار ان کو تباہ کیا اور یہ دونوں قومیں اپنی ان کے کھنڈرات شارع عام پر پڑے ہیں اور ثمود کی قوم حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو کئی ایک احکام دئیے لیکن پھر بھی وہ ان سے روگردان ہی رہے اور دنیا کے کاروبار میں تو ایسے دانا تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر بے خوف ہو کر گھر بنا لیتے تھے یعنی ان کو پہاڑوں کے تراشے میں ذرہ بھی خطرہ نہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم پر گر نہ پڑیں مگر پھر بھی یہ دانائی ان کے کچھ کام نہ آئی پس صبح ہوتے ہی غضب الٰہی کی ایک آواز نے ان کو تباہ کردیا پھر ان کی ایسی حالت میں ان کی کمائی نے ان کو کچھ کام نہ دیا نہ تو پہاڑی مکان اور نہ ان کی شاہ زوری ان کو فائدہ دے سکی اس لئے کہ وہ منشاء الٰہی کے خلاف کام کرتے تھے