سورة ابراھیم - آیت 1

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ا۔ ل۔ ر یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو تاریکیوں [١] سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے لوگوں کو اس راہ کی طرف لائیں جو غالب اور قابل حمد اللہ تعالیٰ کی راہ ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔15) میں ہوں اللہ سب کو دیکھتا اس کتاب (قرآن) کو ہم (اللہ) نے اس لئے اتارا ہے کہ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم سے لوگوں کو بےدینی کے اندھیروں سے دینداری کے نور کی طرف نکال کرلے چلے یعنی اللہ غالب اور بڑی تعریف کے مستحق کی راہ کی طرف جس کی حکومت آسمان و زمین کی تمام چیزوں پر ہے اسی سے نیاز عبودیت کرنے میں ان کا بھلا ہے اور اس سے منکروں اور کافروں کے لئے سخت عذاب سے افسوس ہے جو دنیا کی زندگی آسائش کو آخرت کی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی باتیں کہہ کر لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس سیدھی راہ میں کجی سوچتے رہتے ہیں خواہ مخواہ بے ہودہ اعتراضات کر کے احمقوں میں عزت اور دانائوں میں ذلت پاتے ہیں سچ پوچھو تو یہی لوگ ہدایت سے دور کی گمراہی میں ہیں اور ان یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ سوال بھی ازاں قبیل ہے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہوتا تو مثل دیگر انبیاء کے اس کی کتاب بھی عبرانی زبان میں ہوتی یا بقول آریہ سماج سنسکرت میں ہوتی۔ عربی میں کیوں آئی اس سے پر میشور پر جانب دار ہونے کا دھبہ آتا ہے حالانکہ ہم نے جو رسول بھیجا اس کی قوم کے محاورہ پر بھیجا ہے تاکہ وہ ان کو واضح بیان کر کے سنائے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا رہا کہ جس کو اللہ چاہتا ہدایت کرتا اور جس کو چاہتا گمراہ کرتا اور اس کرنے میں وہ کسی طرح ظلم نہیں کرتا تھا۔ بلکہ بعض شرارتوں اور بعض کے اخلاص ہی کا نتیجہ تھا غرض وہ اللہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ کوئی کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کی حکمت کو پا نہیں سکتا اور اس کے غلبہ کو مٹا نہیں سکتا اور اگر ان یہودیوں کو تیری رسالت سے تعجب اور انکار ہے تو پہلے نبیوں میں کیا خصوصیت تھی کہ ان کو مانتے ہیں ہم ہی نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو نشان دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نور کی طرف لے چل اور فرعون سے رہائی دلانے کے بعد ان کو اللہ کے ایام یعنی واقعات قدرت کی یاد دلائیو جو گذرے ہیں کیونکہ ان واقعات میں ہر ایک صبار اور شکر گذار کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں وہ ان پر غور کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ مشکل نہ ہوگا کہ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جب کہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا پس تم اس پر غور کرو اور اس وقت کو (یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بھائیو ! اللہ کی مہربانی کو یاد رکھو جب اس نے تم کو فرعون کی قوم کے عذاب سے نجات دی جو تم کو بری طرح تکلیف اور عذاب دیتے تھے اور تمہاری نرینہ اولاد کو ذبح کر ڈالتے کہ مبادا بنی اسرائیل کی کثرت نہ ہوجائے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ سلامت رکھتے تھے تاکہ ان سے خدمت لیں اور اگر تم غور کرو تو اس نجات دینے میں اللہ کی تم پر بہت بڑی مہربانی ہوئی اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے جتا دیا تھا کہ اگر میری نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر ناشکری کرو گے تو تمہاری خیر نہیں اپنا ہی کچھ کھوئو گے کیونکہ مرما عذاب بہت ہی سخت ہے اللہ کو تمہارے شکر یا ناشکری کی پرواہ نہیں اور حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم اور تمہارے ساتھ دنیا کے لوگ اللہ کی مہربانیوں کی ناشکری کریں تو بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کیا تمہیں ان لوگوں کے واقعات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ یعنی نوح ( علیہ السلام) کی قوم اور عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان سے پیچھے ہوئے ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کا مجمل بیان یہ ہے کہ ان کے رسول جو اللہ کی طرف سے ہدایت کرنے کو ان کے پاس معجزات اور واضح احکام لے کر آئے تو انہوں نے ان کی تعلیم کو نہایت استعجاب سے سنا اور حیرانی سے اپنے ہاتھ منہ میں ڈال لئے اور سخت غصے میں چبانے لگے اور بولے کہ جن حکموں کے ساتھ تم اپنے گمان میں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہو ہم ان سب سے انکاری ہیں اور جس امر کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو ہمیں اس کی صحت میں سخت تردد ہے۔ بلکہ کذب کا یقین ہے رسولوں نے کہا ہم تو تمہیں صرف اتنا کہتے ہیں کہ تم اللہ مالک الملک کے بندے بن جائو اس کے سوا کسی سے نیاز بندگی نہ جانو۔ تو کیا پھر اللہ کے بارے میں تمہیں شک اور تردد ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ محض اپنی مہربانی سے تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ کہ اس اطاعت کی برکت سے تمہارے گناہ معاف کرے اور اجل مقرر تک تم کو بآسائش مہلت دے مگر تم ایسے عقل کے پتلے ہو کہ ناحق اپنے ناصح مشفق سے بگڑتے ہو وہ بولے ہم ایسے چکنی چپڑی باتوں میں تو آنے کے نہیں ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تم صرف ہماری طرح کے آدمی ہو تمہاری غرض صرف یہ ہے کہ تم ہم کو ان معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے تمام بزرگان قوم کرتے آئے ہیں بھلا کیا وہ تم سے دانائی اور سمجھ و لیاقت میں کسی طرح کم تھے؟ ہم تو تمہاری عذاب وغیرہ کی گیدڑ بھبکیوں سے بھی ڈرنے کے نہیں پس تم کوئی صاف اور واضح دلیل بطور معجزہ کے لائو تو ہم مانیں گے ورنہ نہیں۔ رسولوں نے جواب میں ان سے کہا کہ یہ تو تم نے ٹھیک کہا کہ ہم تمہاری ہی طرح کے آدمی ہیں لیکن آدمی ہونا رسالت کے منافی اور مختلف نہیں ہے اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور رسالت کے معزز عہدے پر ممتاز فرماتا ہے۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اختیار نہیں اور بدون حکم الٰہی ہم کوئی معجزہ یا دلیل نہیں لا سکتے اور اللہ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے پس مسلمانوں اور ایمانداروں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں جس حال میں چاہے رکھے سپردم باد مایہ خویش را او واند حساس کم و بیش را اور ہمارا اس میں عذر ہی کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اس نے ہم کو اپنی راہوں کی ہدایت کی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اسی کے ہو رہیں اور اگر ہمارے اس خیال اور عقیدے پر تم ناراض ہو کر ہمیں ایذا رسانی کرو گے تو ہم تمہاری ایذا رسانی پر صبر کریں گے اور اللہ ہی پر بھروسہ کریں گے کیونکہ وہی اپنے بندوں کا کارساز ہے پس بھروسہ کرنے والوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں مخلوق پر تو کسی حال میں بھروسہ ٹھیک نہیں کیونکہ جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا اور کافروں نے رسولوں سے یہ معقول جواب سن کر کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سخت سے سخت تکلیفیں دے کر اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ یا ہماری تکلیفوں سے آخر تم خود ہی ہمارے مذہب میں لوٹ آئو گے یہ سن کر رسولوں اور ان کے مخلصوں کو بمقتضائے طبیعت انسانی کسی قدر گھبراہٹ ہوئی تو اللہ نے ان کو الہام کیا کہ تم تسلی رکھو ہم ظالموں کو ایسا تباہ کریں گے کہ ان کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہوگا اور ان سے پیچھے اس ملک میں ہم تم کو آباد کریں گے مگر یہ انعام و اکرام انہی لوگوں پر ہوگا جن کو میرے حضور حاضر ہونے کا اور میرے عذاب کا ڈر ہوگا۔ یعنی پختہ مومن ہوں گے یہ سن کر ان کو تسلی ہوئی اور انہوں نے فتح طلب کی تو اللہ نے ان کی دعا کو سنا اور قبول کیا اور ہر ایک ہینکڑی ضدی متعصب ذلیل و خوار ہوا