سورة یوسف - آیت 36

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یوسف کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قیدخانہ [٣٦] میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا۔ کہ میں شراب نچوڑ رہاہوں۔ اور دوسرے نے کہا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ میں نے سر پر روٹیاں اٹھائی ہوئی ہیں۔ جنہیں پرندے کھا رہے ہیں۔ (پھر دونوں کہنے لگے) ہمیں اس کی تعبیر بتاے ئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(36۔52) اور اتفاق ایسا ہوا کہ دو جوان آدمی اس کے ساتھ قید خانہ میں بسزائے جرم داخل ہوئے کچھ دنوں میں جب وہ یوسف (علیہ السلام) کی صحبت سے مستفیض ہوئے اور انہوں نے اس کی صلاحیت کا اندازہ کیا تو اتفاقیہ ان دونوں نے ایک رات خواب دیکھا اور حضرت یوسف کی خدمت میں بیان کرنے کو آئے ایک نے کہا میں خواب میں دیکھتا کہ انگوروں سے شراب نچوڑ رہا ہوں دوسرے نے کہا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھائی ہوئی ہیں کہ ان میں سے جانور کھا رہے ہیں تو ہمیں اس کی تعبیر سے خبر دے کیونکہ ہم تجھے نیک اور بھلا آدمی سمجھتے ہیں اور اور خواب کی تعبیر ایسے ہی لوگ اچھی طرح کرتے ہیں جن کی روحانی صفائی اچھی ہو یوسف ( علیہ السلام) نے کہا اب جو کھانا تمہیں ملنے والا ہے اس کے ملنے سے پہلے میں تم کو اس خواب کی تعبیر بتلائوں گا یہ علم بھی ان باتوں میں ہے جو اللہ نے مجھے سکھائی ہیں مگر تعبیر سننے سے پہلے ذرا میری بھی ایک بات سن لو جو اصل میں تمہارے ہی حق میں مفید ہے۔ سنو ! جو لوگ اللہ سے منکر ہیں اور مخلوق سے دعائیں مانگتے ہیں ان کا مذہب اللہ کو پسند نہیں ان کی نجات نہ ہوگی بلکہ ابدی عذاب میں رہیں گے اسی لئے میں نے ایسے لوگوں کے دین کو کبھی پسند نہیں کیا جو اللہ پر جیسا چاہئے ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کی زندگی سے منکر ہیں اور میں اپنے باپ دادا ابراہیم اسحق اور یعقوب علیہم السلام کے دین کا تابع ہوں ہم کو اور نیز تم کو مناسب نہیں کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک بنائیں یہ بات جو ہمارے ذہن میں جم گئی ہے ہم پر اور ہمارے ذریعہ سے تمام لوگوں پر جو اس پر کاربند ہوں اللہ کے فضل سے ہے ورنہ بہتیرے دانایان فرنگ و یورپ اس سے بے نصیب ہیں لیکن بہت سے لوگ اس کا شکر نہیں کرتے بلکہ یوں کہئے کہ اس کو نعمت ہی نہیں جانتے تو شکر کیسا۔ صرف مُلّانا پن سمجھتے ہیں نعمت تو اس علم کو سمجھتے ہیں جس سے دنیا کی کمائی ہو یوسف (علیہ السلام) نے اس تعلیم کو واضح کرنے کی غرض سے یہ بھی کہا اے میرے قید خانہ کے دوستو ! بتلائو تو جدا جدا کئی ایک معبود اچھے ہیں یا اللہ اکیلا جو سب پر زبردست ہے اچھا ہے اگر غور کرو تو تھوڑی سی فکر میں تمہیں یہ بات حل ہوسکتی ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا نرے مصنوعی ناموں ہی کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے تجویز کر رکھا ہے ورنہ دراصل اس طاقت کی کوئی چیز سوائے اللہ کے دنیا میں نہیں ہے جس کی عبادت کی جائے محض تمہارے من گھڑت ڈھکوسلے ہیں۔ اللہ نے اس امر پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور ایسے مسائل میں جو ذات و صفات کے متعلق ہوں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چل سکتا اس نے تو یہی حکم دیا ہے کہ اسی کی عبادت کیا کرو۔ یہی مضبوط اور سیدھا مذہب ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے وہ محض اپنی جہالت سے غیروں کو پکارتے ہیں بندوں سے حاجت مانگتے ہیں اور نفع نقصان کی امیدیں ان سے رکھتے ہیں گو ایسے لوگ بظاہر علم دار ہوں تاہم حقیقت میں جاہل ہیں اے جیل خانہ کے دوستو ! یہ تو میں نے تمہیں حقانی تعلیم سکھائی ہے اب سنو ! تمہارے خواب کی تعبیر بتلاتا ہوں تم دونوں میں سے ایک یعنی جس نے خواب میں انگور نچوڑے ہیں وہ تو قید سے چھوٹ کر اپنے عہدے پر جا کر اپنے آقا کو شراب پلاوے گا جو اس کا کام ہے یعنی بعد تحقیقات وہ بے جرم ثابت ہوگا اور دوسرا یعنی جس نے خواب میں اپنے سر پر ٹوکرا اٹھایا تھا وہ جرم کے ثبوت پر سولی دیا جاوے گا سولی کے تختے پر اسے چھوڑ دیں گے تو جانور اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے جس امر سے تم سوال کرتے ہو یقینا جانو کہ وہ اللہ کے نزدیک ہو ہی چکا ہے یعنی انشاء اللہ اس میں سرمو تفاوت نہ ہوگا۔ یہ سن کر ان میں سے ایک خوش ہوا دوسرا رنجیدہ ہو کر بیٹھ رہا حضرت یوسف نے جسے چھوٹنے والا سمجھا تھا اسے کہا بھائی اگر اللہ تجھ پر رحم کرے اور تو بحال ہوجائے تو اپنے آقا کے پاس جو والی ملک ہے میرا بھی ذکر کیجیو کہ ایک بے گناہ مظلوم جیل خانہ میں پھنسا ہوا ہے سو شیطان نے اسے آقا کو یاد دلانا بھلا دیا یوسف ( علیہ السلام) کا یہ سوال گو شرعاً جائز تھا مگر عرف خاص میں جن کا یہ طریق ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے پسندیدہ نہیں تھا پس اسی وجہ سے وہ قید خانہ میں کئی سال تک کس مپرسی کی حالت میں پڑا رہا آخر اللہ کی جناب میں دعا قبول ہوئی تو اس نے خود ہی اس بلا سے نجات دلائی اور اس کا ظاہری سامان بنایا کہ بادشاہ کو ایک خواب دکھایا جو اس نے اپنی کچہری میں بیان کرتے ہوئے کہا میں نے خواب میں سات موٹی موٹی گائیں دیکھی ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیں سبز دیکھی ہیں اور کئی ایک خشک اس خواب سے میں سخت پریشان ہوں اے درباریو ! اگر تمہیں علم تعبیر ہے تو اس خواب کی تعبیر کرو سب نے بیک زبان کہا کہ یہ تو بے ہودہ اور پریشان خواب و خیال ہیں اور ہم ایسے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے اس لئے کہ ہر ایک خواب قابل تعبیر نہیں ہوتا بلکہ وہی ہوتا ہے جو القاء ربانی سے ہو ورنہ دن کے خیالات ذہن میں بیٹھے ہوئے رات کو قوت متخیلہ میں متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر بادشاہ کو ان کے اس جواب سے تشفی نہ ہوئی وہ اس کی تعبیر کا جو یاں رہا آخر تدبیر الٰہی غالب آئی اور جو ان دو قیدیوں میں سے بری ہوا تھا اور اسے بعد مدت مدید اور عرصہ بعید کے خواب کا قصہ سن کر اپنا خواب یاد آیا تو اس نے وزراء سے کہا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتلا سکتا ہوں پس مجھے بھیجو کہ میں جیل کے ایک قیدی سے جس نے مجھے تعبیر بتلائی تھی پوچھ آئوں۔ چنانچہ اسے اجازت ہوئی اور اس نے یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا اے یوسف ( علیہ السلام) صدیق راست باز میں تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں کرسکتا جو تو نے خواب کی سچی تعبیر بتلا کر میری تسلی کی تھی اب ایک اور اسی قسم کی ضرورت درپیش ہے پس تو ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی موٹی گائیں ہیں جن کو دوسری دبلی پتلی سات گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیں سبز اور کئی ایک خشک ہیں یہ تو مجھے بتا کہ میں درباری لوگوں کے پاس جو اس کے منتظر ہیں جائوں اور ان کو تیری تعبیر سنائوں تاکہ انہیں بھی معلوم ہو جس سے شاید تیری مراد برآئے جس کی بابت تو نے مجھے کہا تھا یوسف ( علیہ السلام) نے کہا تعبیر تو کیا اس بلاء بےدرمان کی تدبیر بھی میں تم کو بتلا دوں گا یہ ایک سخت آفت تم پر آنے والی ہے کہ سات سال تک تو تم پر ہر طرح سے ارزانی اور فارغ البالی رہے گی مگر بعد ازاں سات سال سخت قحط ہوگا سو تم نے ایسا کرنا کہ سات سال تو بدستور پے در پے کاشتکاری کرتے رہنا پھر جس قدر فصل درو کرو (کاٹو) اسے بالوں ہی میں رہنے دینا مگر تھوڑا سا کھانے کے قدر (صاف کرلینا) پھر اس سے پیچھے سات سال سخت قحط کے آویں گے کہ جو کچھ تم نے ان کے لئے بچا رکھا ہوگا سب کا سب چاٹ جائیں گے یعنی تم سب کھا جائو گے لیکن بہت کم تھوڑا سا حصہ جو تم بیج وغیرہ ضرورتوں کے لئے بچا رکھو گے پھر اس کے بعد ایک ایسا خوشحالی کا سال آئے گا کہ اس میں لوگوں کی فریاد سنی جائے گی سب قسم کی تکلیفیں جو پے در پے قحط سالیوں سے ان پر آرہی ہیں دفع ہوجائیں گی اور وہ اس سال میں خوب انگور نچوڑیں گے غرض عیش و عشرت کے سب سامان ان کو مہیا ہوجائیں گے جب ایلچی نے بادشاہ کو یہ ساری تعبیر اور تدبیر سنائی بادشاہ کے دل میں اس تعبیر سے یوسف ( علیہ السلام) کی ایسی عظمت بیٹھ گئی کہ کسی کے ٹلانے سے نہ ٹلی کیونکر ٹل سکتی اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر کون غالب ہوسکتا ہے ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جب کہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا غرض یوسف ( علیہ السلام) کے بھلے دن آئے اور بادشاہ نے کہا جس نے یہ تعبیر اور تدبیر بتلائی ہے اسے میرے پاس لائو وہ اس قابل ہے کہ اس کی عزت و توقیر ہو نہ کہ قید میں رکھا جائے پس اردلی حکم سنتے ہی دوڑے جب یوسف کے پاس ایلچی بلانے کو آیا تو یوسف ( علیہ السلام) نے اسے کہا مناسب ہے کہ تو اپنے آقا کے پاس جس نے تجھے بھیجا ہے لوٹ جا اور اس سے دریافت کر آ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے زلیخا کی دعوت میں ہاتھ کاٹ لئے تھے میں یہ تحقیق صرف اس لئے کرانی چاہتا ہوں کہ آئندہ بدگمانوں کو موقع نہ ملے ورنہ میرا پروردگار تو ان کی چال بازیوں سے آگاہ ہے بہتر ہے کہ شاہ بھی مطلع ہوجائے تاکہ سرکاری طور پر ہمیشہ کے لئے میری بریت ہو بادشاہ نے یہ سوال سن کر کیفیت طلب کی ان عورتوں کو بلا کر کہا کہ جس وقت تم یوسف کو ناجائز کام پر مائل کرتی تھیں تمہیں اس کی بابت کیا کچھ معلوم ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے بدنیت ہے یا نیک نیت سب کی سب بیک زبان بولیں سبحان اللہ ہم نے تو یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی وہ ایسا نیک خصال پسندیدہ مقال تھا کہ اس جیسا کوئی آدمی ہم نے نہیں دیکھا غرض اس میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہے وہ عزیز مصر کی عورت زلیخا نے عورتوں کی شہادت سن کر کہا اب تو شاہی مجلس میں بھی سچی بات کا اظہار فاش ہوگیا بے شک میں ہی نے اسے پھسلایا تھا اور وہ راست گو ہے غرض ہر طرح سے خاطر خواہ جب فیصلہ ہوا اور چوبدار نے یوسف ( علیہ السلام) کو تمام قصہ سنایا تو یوسف ( علیہ السلام) نے کہا یہ تحقیق کسی اور غرض کے لئے نہ تھی صرف اس لئے تھی کہ میرا آقا معلوم کرلے اور اسے کسی طرح کا واہمہ نہ رہے کہ میں نے اس کی غیبوبت میں خیانت نہیں کی اور وہ یہ بھی جان لے کہ اللہ تعالیٰ خائنوں کی تدبیریں باور نہیں کیا کرتا گوہ وہ اپنی خیانت کو کیسی ہی اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیر اور حیلہ سازی سے دبانا اور مخفی رکھنا چاہیں آخر ایک نہ ایک روز اس کا ظہور ہو کر ہی رہتا ہے اگر میں نے بھی کوئی خیانت کی ہوتی تو کبھی نہ چھپتی اور اصل پوچھو تو یہ سب کچھ اللہ کی مہربانی سے ہے