سورة یونس - آیت 31

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے پوچھئے کہ : آسمان اور زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے؟ یا وہ کون ہے جو سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک ہے؟ اور کون ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو کائنات کا نظام چلا رہا ہے؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ ’’اللہ‘‘ پھر ان سے کہئے کہ ’’پھر تم اس سے [٤٥] ڈرتے کیوں نہیں؟‘‘

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔56) گو بعض تیرے مخاطب اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کو کسی کی تنذیر اور تخویف کارگر نہیں ہوسکتی تاہم جہان سننے والوں سے خالی نہیں دوسرے بے ضد لوگوں کی ہدایت اور فائدے کے لئے تو ان سے پوچھ کہ تم کو آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے کون اوپر سے بارش کرتا ہے اور نیچے سے سبزیاں اگاتا ہے اور کون تمہاری قوت سمع اور قوت باصرہ پر قبضہ تام رکھتا ہے اور کون زندوں کو جاندار بنا کر مردوں یعنی بے جان منی کے نطفہ سے نکالتا ہے اور کون مردوں کو زندوں سے موت کے ذریعہ نکال لے جاتا ہے اور کون نظام عالم میں تمام احکام جاری کرتا ہے جس سے ہر ایک چیز اپنی اپنی حد پر آتی اور جاتی ہے ہمیشہ موسم اپنے وقت پر آتے ہیں کھیت اپنے وقت پر پکتے ہیں انگوریاں اپنے وقت پر نکلتی ہیں اگر ان سے یہ سوال ہوں تو فوراً کہہ دیں گے اللہ ہی سب کچھ کرتا ہے پس تو کہہ دیجو کہ پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں جس کے قبضے میں تمام کام ہیں اس کو چھوڑ کر اس کی مخلوق اور اس کے بندوں اور غلاموں سے اپنی حاجات مانگتے ہو سنو ! اللہ تعالیٰ فرما چکا قرآن کے اندر میرے محتاج ہیں پیر و پیمبر نہیں طاقت سوا میرے کسی میں کہ کام آوے تمہارے بے کسی میں بس یہی اللہ تمہارا حقیقی مربی ہے پس حق کو چھوڑنے کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں اسلام چھوڑ کر کسی طرف جائو گمراہی میں رہو گے جیسے وہ دو نے چار سے منکر ہو کر خواہ کوئی عدد اختیار کرو سب غلط ہیں پھر تم کدھر کو بہکے جا رہے ہو سمجھتے نہیں یاد رکھو اللہ تعالیٰ سے ڈرو ورنہ اس کا قانون یہ بھی ہے کہ وہ ایسے بے پرواہوں کو اپنی جناب سے دھتکار دیا کرتا ہے اے نبی اسی طرح تیرے رب کا حکم ان میں سے بدکاروں پر لگ چکا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے یعنی ان کی انتہائی بدکاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر محرومی کا حکم لگ چکا ہے اللہ تعالیٰ پناہ دے تو ان سے پوچھ کہ تمہارے بنائے ہوئے ساجھیوں میں سے بھی کوئی مخلوق کو پیدا کر کے محض اپنے حکم سے فنا کرسکتا ہے تو ان کے حسب منشاء خود ہی جواب میں کہہ کہ اللہ ہی مخلوق کو اول مرتبہ بے نمونہ پیدا کرتا ہے اور پھر اسے فنا بھی کردیتا ہے تو اب بتلائو تم ایسے اللہ مالک الملک کو چھوڑ کر کہاں کو الٹے جا رہے ہو تو یہ بھی ان سے پوچھ کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی حق کی راہ نمائی کرتا ہے یا کسی کو خود توفیق خیر دیتا ہے؟ تو کہہ اللہ تو حق کی راہ دکھاتا ہے پھر بعد اس کے کہیو کہ جو کوئی سچی راہ دکھاوے اس کا اتباع بہت مناسب ہے یا جو راہ نمائی نہ کرسکے بلکہ خود بھی اندھوں کی طرح بغیر دوسرے کی راہ نمائی کے ہدایت یاب نہ ہوسکے اس کا اتباع مناسب ہے؟ پھر ایسے واضح دلائل کے ہوتے ہوئے بھی تم کجروی کرتے ہو تمہیں کیا ہوگیا کیسی غلط رائے لگاتے ہو بدیہی اور یقینی امر کو چھوڑ کر اندھا دھند ایک دوسرے کے پیچھے چلے جا رہے ہیں اور ان میں کے اکثر لوگ صرف اٹکل پچو باتوں پر جن کا کوئی ثبوت نہیں چلتے ہیں محض سنی سنائی گپیں بزرگوں کی نسبت بہتان لگاتے ہوئے کہ فلاں پیر نے بارہ سال بعد ڈوبا ہوا بیڑا سلامت نکال لیا تھا فلاں بزرگ نے اپنی نیاز دینے والی کی درخواست پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف سات بیٹے دئیے تھے معاذ اللہ یہ ایسے من گھڑت قصے ہیں جن کا کچھ ثبوت نہیں بلکہ ان کی نقیض متحقق اور واقع ہے یقینی حالانکہ یقینی امور کے موقع پر محض اٹکل اور وہمی باتیں کچھ بھی سود مند نہیں ہوا کرتیں اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے ) یُعِیْدُہٗ کا ترجمہ میں نے فنا کیا ہے دوبارہ زندہ کرنے کا نہیں کیا اس لئے کہ ایک تو دوسری آیت وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ ان معنوں کی تائید کرتی ہے۔ دوم دلیل کفار کے معلمات پر مبنی ہے حالانکہ مشرکین دوبارہ زندگی کے قائل نہ تھے پھر دلیل کیسی؟ فافہم ( ایسے ایسے مضبوط دلائل سن کر بھی قرآن کو افترا اور مخلوق کی تصنیف کہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ یہ قرآن ایسی کتاب نہیں کہ اللہ کے سوا کسی مخلوق سے بنائی جائے لیکن اپنے سے پہلے واقعات اور پیشگوئیوں کی تصدیق ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ان پیشگوئیوں کا صدق ملتوی رہتا اور کتاب الٰہی یعنی ان الہامی مضامین کی جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وقتاً فوقتاً نازل فرمایا کرتا ہے تفصیل ہے جو مسائل کتب سابقہ میں بالاجمال تھے ان کو اس میں بالتفصیل بیان کردیا گیا ہے مختصر یہ کہ اس میں شک نہیں کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے ہے کیا سن کر بھی مشرک کہتے ہیں کہ اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن بنا لیا اور اپنے پاس سے بنا کر اللہ تعالیٰ کی نسبت لگا دیا ہے ان سے تو کہہ اس جیسی ایک سورت تو بنا لائو اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو اپنی حمایت کے لئے بلا لو اگر اس دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ قرآن بندے کی تصنیف ہے سنو ! افترا نہیں بلکہ وہ حق ہے مگر انہوں نے ناحق جہالت سے ان باتوں کی تکذیب کی ہے جن پر ان کا علم نہیں پہنچا یعنی اس کے اسرار اور غوامض کی تہہ تک تو پہنچے نہیں اور اس کی آئندہ خبروں کی انتہا تو ہنوز آئی نہیں بلا دیکھے انجام کی تکذیب پر مصر ہو بیٹھے ہیں اس طرح جلدی میں ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی پھر تو غور کر کہ ظالموں کا انجام کیا بد ہوا اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو دل سے تو اس قرآن کو مانتے ہیں گو ظاہر نہ کریں اور بعض ایسے بھی ہیں جو ضد میں آئے ہوئے ہیں کسی طرح نہیں مانتے تیرا کچھ حرج نہیں کیونکہ تیرا پروردگار مفسدوں کو خوب جانتا ہے اور اگر تیری نہ مانیں تو تو ان سے کہہ دے کہ جائو پڑے اپنا سر کھائو میرے کام مجھ کو ہیں اور تمہارے کام تم کو ہیں تم میرے کام سے بے تعلق ہو میں تمہارے کام سے الگ ہوں نہ تم کو میرے حال سے سوال نہ مجھ کو تمہارے حال سے پوچھ میرا کام صرف تبلیغ ہے سو میں کرچکا ہوں اور کرتا رہوں گا جب تک تم امن میں خلل انداز نہ ہو گے میں تمہارے دنیاوی احکام سے بھی متعرض نہ ہوں گا ان میں سے بعض لوگ تیری طرف بظاہر کان جھکاتے ہیں جس سے تو سمجھتا ہوگا کہ وہ سنتے ہیں اور تیرے پاکیزہ کلام سے متاثر ہوتے ہیں ) تسمع کے معنی سنانا ہے مگر اس کے ساتھ لا یعقلون کا لفظ بتا رہا ہے کہ اس کے معنی عام ہیں کیونکہ بہرہ اگر عقل مند ہو تو اشاروں سے سمجھ سکتا ہے اور جب عقل کی بھی نفی کی گئی تو معلوم ہوا کہ تسمع سے مراد عام فہم صرف سماع مراد نہیں۔ منہ ( مگر ایسا نہیں بلکہ خاص مطلب کے لئے کسی کے فرستادہ مجلس میں عیب جوئی کی نیت سے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو تیرے وعظ و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا کیا تو بہروں کو سمجھا سکے گا گو وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں بعض ان میں سے تیری طرف نظر پھاڑ پھاڑ کر حیرانی سے دیکھتے ہیں جس سے ان کی نیت صرف اظہار تعجب اور حقارت ہوتی ہے چنانچہ وہ کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہی شخص اس حیثیت کا آدمی ہمارے معبودوں کو کو سا کرتا ہے تو کیا تو اندھوں کو راہ نمائی کرنا چاہتا ہے گو وہ دانستہ نہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع اور بینائی چھین لی ہے لیکن اس چھیننے میں اس نے ان پر کسی طرح سے ظلم نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر رتی بھر بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کی بتلائی ہوئی دوا سے جی چراتے ہیں مضرات پر جرأت کرتے ہیں تو وبال جان اٹھاتے ہیں اور ابھی تو ان کی اس دن عجیب حالت ہوگی جس روز ان کو اللہ تعالیٰ اپنے حضور جمع کرے گا عذاب کو دیکھ کر یہ ایسے مبہوت ہوں گے کہ دنیا کی ساری خرمستی اور عیش پرستی بھول جائیں گے ایسا سمجھیں کہ دنیا میں گویا ایک گھڑی دن سے زائد نہیں ٹھہرے تکالیف شاقہ کو دیکھ کر دنیا کی اتنی مدت دراز ان کو ایک گھڑی معلوم ہوگی ایک دوسرے کو جو بدکاریوں میں شریک ہوئے تھے پہچانیں گے اور آپس میں ملامت بھی کریں گے کہ تو نے مجھ سے برے کام کرائے وہ کہے گا تو نے مجھے برانگیختہ کیا اگر تو نہ ہوتا تو میں کبھی بھی اس بلا میں شریک نہ ہوتا سن لو ! کوئی بھی ہو جنہوں نے اللہ کی ملاقات سے انکار کیا قولاً ہو یا فعلاً تو یہ کہ صاف کہتے ہیں کہ ہم نے مر کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر نہیں ہونا عملاً یہ دنیا میں ایسے مست پھرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا ان کو خیال ہی نہیں وہی لوگ نقصان والے ہیں جو دنیا کی ہستی پر نازاں ہوئے اور کسی طرح سے ہدایت پر نہ آئے بھلا یہ جو تیرے مقابلہ پر اکڑتے ہوئے عذاب کے خواستگار ہوتے ہیں اور دیر لگنے پر تجھے سخت و سست سناتے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ اگر ہم اپنے موعودہ عذاب میں سے کچھ حصہ ان کو دنیا ہی میں پہنچاویں یا اس سے پہلے تجھے فوت کرلیں تو دونوں صورتوں میں ان کو کچھ فائدہ نہیں کیونکہ معاملہ ان کا تو ہمارے ساتھ ہے تو بھی ہماری ہی طرف یعنی اللہ ہی کی جانب لوٹ کر آنا ہے ) مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئیوں میں حصہ کثیر بلکہ اکثر جب غلط ہوا تو ان کے مریدوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ کسی نبی کی صداقت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی ساری پیشگوئیاں سچی ہوں بلکہ بعض کا سچا ہونا بھی کافی ہے اور اس دعویٰ پر اس آیت سے استدلال کیا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں ” ایک دوسرا اصل پیشگوئیوں کے متعلق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ انذاری پیشگوئیاں بعض وقت ٹل بھی جاتی ہیں ایک نہایت کھلی کھلی مثال یونس نبی کی پیشگوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں بھی فرماتا ہے اِنَّ رَبَّکَ صَادِ قًایُّصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں بظاہر پوری نہیں بھی ہوتیں اس لئے قرآن شریف یہ اصول قائم کرتا ہے کہ مدعی نبوت کے متعلق دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کی اکثر پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں یا نہیں۔“ (رسالہ ریویو قادیاں نمبر ٦۔ ٧ جلد ٧ ص ٢٨٩) جواب :۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی باتوں میں سے ایک بھی غلط نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ مو کدبنوں ثقیلہ خود فرماتا ہے فَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامِ (پ ١٣ ع ١٩) یعنی یہ خیال ہرگز نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے وعدہ کے خلاف کرتا ہے ہرگز نہیں کیونکہ اللہ غالب اور بڑا انتقام لینے والا ہے۔ نیز فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ المِیْعَادَ (پ ٣ ع ٩) اس مضمون کی آیات بکثرت ہیں ہاں آیت زیر بحث کا مطلب قادیانی قائل نے جو سمجھا ہے وہ غلط ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے مخالفوں کو جو وعدے دیئے جاتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ (١) دنیا میں گرفت (٢) اور آخرت میں عذاب۔ چنانچہ فرمایا : وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ العَذَاب الاَدْنٰی دُوْنَ العَذَاب الاَکْبَرِ (پ ٢١ ع ١٥) اس آیت میں عذاب ادنیٰ اور عذاب اکبر دونوں مذکور ہیں عذاب اکبر بعد موت کا عذاب ہے چنانچہ ارشاد ہے ولعذاب الاخرۃ اکبر (پ ع ) پس ان شواہد سے آیت موصوفہ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ مومن شخص کہتا ہے اگر موسیٰ سچے ہیں تو ان کے موعودہ عذاب میں سے بعض (دنیاوی) عذاب تم کو پہنچ جائے گا چونکہ دنیاوی عذاب موعودہ عذاب کا بعض ہے اس لئے اس مومن نے یُصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ یعنی جس جس عذاب سے تم کو ڈرایا ہے اس مجموعہ میں سے بعض حصہ تم کو اسی دنیا میں پہنچ جائے گا۔ جو بالکل سچ ہے۔ اس کا یہ مطلب کہ نبی کی کوئی بتائی ہوئی بات غلط ہوجایا کرتی ہے الی اللہ المشتکی ( اور اللہ تعالیٰ جس سے ان کا اصل معاملہ ہے وہ ان کے کاموں پر مطلع ہے تیرا تو اس امر میں تعلق اس سے زائد نہیں کہ تو پیغام رساں ہے تیری طرح ہر ایک امت کے لئے رسول ہو گذرے ہیں جن کے مفصل قصے اپنے موقع پر مذکور ہیں مجمل یہ ہے کہ ان قوموں نے بھی رسولوں سے وہی معاملے کئے جو تیری قوم تیرے ساتھ کر رہی ہے پھر جب کبھی ان کے پاس رسول آتے اور وہ انکار ہی پر بضد رہتے تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا جس سزا کے وہ قابل ہوتے وہی ان کو دی جاتی اور ان پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوتا کہ ناکردہ گناہ بھی ان کے سر تھوپے جائیں بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہوتا وہی ان کی ہلاکت کو کافی ہوتا مگر یہ ظالم ایسے کہاں کہ پچھلے لوگوں کے قصوں سے نصیحت پاویں یہ تو الٹے اکڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ وعدہ قیامت کا کب ہے اگر اس وعدے میں کہ قیامت آنے والی ہے تم مسلمان سچے ہو تو بتلائو تو سہی کہ کب ہوگی تو کہہ ایسی خبروں کا بتلانا تو علم غیب پر مبنی ہے جو مجھ میں نہیں میں تو اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے وہ پہنچ کر ہی رہتا ہے جب مجھے اتنی بات کا بھی اختیار نہیں تو یہ میں کیسے بتلا سکتا ہوں کہ قیامت کب ہے اور تمہاری ہلاکت کب البتہ اتنا اجمالاً معلوم ہے کہ ہر ایک جماعت کی ہلاکت کے لئے وقت مقرر ہے جب ان کا وقت مقرر آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی بھی نہ آگے ہوسکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اے نبی تو ان سے کہہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات کو یا دن کو آجائے تو مجرم کس چیز کے ذریعہ سے جلدی کر جائیں گے یعنی عذاب الٰہی آنے پر تم کس چیز کے ذریعہ سے بچ سکتے ہو کوئی ذریعہ تمہارے پاس ہے؟ کہ تم عذاب کے آنے پر جلدی سے کہیں چل دو جب کوئی نہیں تو پھر عافیت کیوں نہیں مانگتے کیا جب عذاب آنازل ہوگا اس وقت ایمان لائو گے؟ ایسا کرو گے تو اس وقت تمہیں (کہا جائے گا) کہ اب ایمان لاتے ہو اور اس سے پہلے تو تم اس عذاب کو جلدی جلدی مانگ رہے تھے غرض وہ عذاب کسی طرح دفع نہ ہوگا بلکہ بدکاروں کو تباہ کرے گا پھر بعد موت ظالموں کو کہا جاوے گا کہ ہمیشہ کا عذاب چکھو تم کو اپنے ہی کئے کا بدلہ ملے گا کسی طرح کی ظلم و زیادتی تم پر نہ ہوگی یہ سن کر بڑی حیرانی میں تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ جو تو کہتا ہے سچ ہے؟ تو کہہ ہاں واللہ وہ بے شک سچ ہے یقینا ہو کر رہے گا اور تم اللہ کو اس کے کاموں میں عاجز نہیں کرسکتے جو کام وہ کرنا چاہے تم کو کیسا ہی ناپسند کیوں نہ ہو تمہاری ناپسندیدگی سے رک نہیں سکتا یہ تو ایک معمولی آدمی ہیں وہاں تو کوئی بھی چھوٹ نہیں سکتا خواہ کیسا ہی بلند قدر اور ذی عزت کیوں نہ ہو بلکہ جس کسی نے ظلم اور بدکاری کی ہوگی اس کے پاس اگر تمام زمین کا مال ہوگا تو وہ سارے کا سارا بھی فدیہ میں دے دینے کو تیار اور مستعد ہوجاوے گا مگر قبول نہیں ہوگا اور جب عذاب دیکھیں گے تو پوشیدہ پوشیدہ ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا یہ نہ سمجھو کہ کفار بڑے بڑے رئیس اور بادشاہ یا قوی ہیکل جوان مرد ہیں ایسے لوگوں کا پکڑنا آسان کام نہیں سنو ! جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور حکومت ہے کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کے سامنے چون و چرا کرے یاد رکھو اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے وہی تو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کی طرف تو تم سارے پھیرے جائو گے۔